پاکستان
Time 26 دسمبر ، 2019

جج ویڈیو اسکینڈل کی تحقیقات، ایف آئی اے کا ن لیگ کے مرکزی سیکرٹریٹ پر چھاپہ

وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے لاہور میں مسلم لیگ (ن)  کے مرکزی سیکرٹریٹ پر چھاپہ مار ا، ذرائع  کا کہنا ہے کہ یہ چھاپہ جج ارشد ملک ویڈیو کیس کے سلسلے میں مارا گیا۔

 ایف آئی اے اسلام آباد کی 4 رکنی ٹیم نے ن لیگ کے ماڈل ٹاؤن سیکرٹریٹ پر چھاپہ مارا، ایف آئی ٹیم کی سربراہی ڈپٹی ڈائریکٹر اعجاز احمد نے کی۔

ذرائع کے مطابق یہ چھاپہ جج ارشد ملک ویڈیو کیس کے سلسلے میں مارا گیا اور اس کا مقصد کیس کے سلسلے میں مواد اور اس حوالے سے کی گئی مریم نوازکی پریس کانفرنس کاریکارڈ قبضے میں لینا تھا۔

خیال رہے کہ جج ارشد ملک ویڈیو کیس کی تحقیقات کے سلسلے میں ایف آئی اے نے ن لیگ کے رہنماؤں پرویز رشید اور عظمیٰ بخاری کو 30 دسمبر کو جب کہ عطاء اللہ  تارڑ کو 27  دسمبر طلب کررکھا ہے۔

ایف آئی اے کے چھاپے کے بعد  ماڈل ٹاؤن سیکرٹریٹ کے باہر ن لیگ کے کارکن جمع ہوگئے اور قیادت کے حق میں نعرے لگانا شروع کردیے۔

یہ عمران نیازی کا اوچھا ہتھکنڈا ہے،عطاء تارڑ

ایف آئی اے ٹیم کی روانگی کے  بعد مسلم لیگ ن کے رہنما عطاء تارڑ  نے سیکرٹریٹ کے باہر  میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ شہبازشریف کے خلاف 56 کمپنیوں سے معاملہ شروع ہوا تھا جو اب چولستان کی بنجر زمینوں تک آپہنچا ہے۔

 عطاء تارڑ  کا کہنا تھا کہ  ایف آئی اے کی جانب سے جج ارشد ملک ویڈیوکیس میں ایک کمپیوٹر کی ہارڈ ڈسک قبضے میں لی گئی ہے، یہ عمران نیازی کا اوچھا ہتھکنڈا ہے، اس سے قبل لیگی رہنماؤں کو ایف آئی اے میں طلبی کے نوٹس موصول ہو چکے تھے۔

 جج ارشد ملک ویڈیو کیس کے اہم کردار اور ن لیگی کارکن ناصر بٹ کے حوالے سے عطاء تارڑ نے کہا کہ ناصر بٹ کئی دفعہ لندن ہائی کمیشن گئے لیکن ان سے ویڈیو نہیں لی گئی نہ فرانزک ہوا، ناصر بٹ کو  اگر سیکیورٹی فراہم کی جائے تو ویڈیو کے ساتھ پیش ہونے کو تیار ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جج ارشد ملک کو کسی نے کچھ نہیں کہا، ہمیں کارروائیوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، واجد ضیاء کو ایف آئی اے کو سربراہ لگایا گیا، وہ مسلم لیگ ن کے خلاف کارروائی میں سر گرم ہیں۔

ن لیگی رہنما کا مزید کہنا تھا کہ ہم آپ کی فسطائیت اور فاشسٹ سوچ کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے، شہریار آفریدی اللہ سے معافی مانگیں اور قوم سے بھی معافی مانگیں، یہ جھوٹےکاغذ دکھا کر ہمارا میڈیا ٹرائل کرلیتے ہیں مگر عدالتوں میں دکھانے کے لیے ان کے پاس کچھ نہیں ہے۔

احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کے ویڈیو اسکینڈل کا پس منظر

اسلام آباد کی احتساب عدالت نمبر 2 کے جج ارشد ملک نے ہی سابق وزیراعظم نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں 7 سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی تھی جب کہ فلیگ شپ ریفرنس میں بری کیا تھا۔

6 جولائی 2019 کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت نے پریس کانفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو سزا سنانے والے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی ایک ویڈیو جاری کی جس میں مبینہ طور پر یہ بتایا گیا کہ احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کو نواز شریف کو سزا سنانے کے لیے بلیک میل کیا گیا۔

 اس بنیاد پر مریم نواز نے یہ مطالبہ کیا کہ چونکہ جج نے خود اعتراف کرلیا ہے لہٰذا نواز شریف کو سنائی جانے والی سزا کو کالعدم قرار دے کر انہیں رہا کیا جائے۔

تاہم جج ارشد ملک نے ویڈیو جاری ہونے کے بعد اگلے روز ایک پریس ریلیز کے ذریعے اپنے اوپرعائد الزامات کی تردید کی اور مریم نواز کی جانب سے دکھائی جانے والی ویڈیو کو جعلی فرضی اور جھوٹی قرار دیا۔

16 جولائی کو ارشد ملک نے الیکٹرانک کرائم ایکٹ 2016 کے تحت ایف آئی اے کو درخواست دی جس پر ایف آئی اے نے سائبر کرائم کی شقوں کے تحت مقدمہ درج کیا تھا جس کی تحقیقات جاری ہیں۔

دوسری جانب ویڈیو اسکینڈل کی وجہ سے ارشد ملک کو عہدے سے ہٹاکر آفیسر آن اسپیشل ڈیوٹی (او ایس ڈی) بنا دیا گیا۔

مزید خبریں :