16 فروری ، 2020
پی ٹی آئی حکومت کے پاس اس وقت 25 وفاقی وزیر، پانچ وزیر مملکت اور پانچ مشیر ہیں، صوبوں کے وزیر و مشیر ان کے علاوہ ہیں، حکومت کی یہ پوری مشینری صرف ایک بات کرتی سنائی دے گی یعنی سابقہ حکومتوں پر تبریٰ اور اپنی بےبسی کا رونا۔
چور، ڈاکو، لٹیرے اور دیگر سوقیانہ الفاظ اور بازاری لب و لہجے کا ایک بےہنگم شور ہے جس میں عامۃ الناس کی فلاح و بہبود کے کسی منصوبے یا سوچ کا دور تک شائبہ نہیں ہے۔صحافی و اینکرز حضرات بھی کسی وزیر سے اس کی متعلقہ وزارت سے متعلق سوال نہیں کرتے، مثال کے طور پر ماحولیاتی تبدیلی کی وزیر زرتاج گل سے کیا ضرورت ہے آٹے دال کا بھاؤ پوچھا جائے اور وہ بھی بڑے طمطراق سے بتائیں کہ ہم نے دودھ اور شہد کی نہریں بہا دی ہیں۔ ان سے تو یہ پوچھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان میں دنیا کی پانچویں سب سے آلودہ ہوا کیوں ہے، پاکستان کے دوسرے بڑے شہر لاہور کا ہر شہری اپنی زندگی کے پانچ سال کیوں اور کس طرح گنوا رہا ہے؟
ان سے سوال کیا جائے کہ ملک کے طول و عرض میں پھیلے اینٹوں کے بھٹوں اور چمنیوں کے دھویں کی وجہ سے شہریوں کو کیا کیا بیماریاں لگ رہی ہیں اور یہ روزانہ کتنے اونس پلاسٹک نگل جاتے ہیں۔ اور یہ کہ فضائی آلودگی کو بہتر کرنے کیلئے آپ کیا کر رہی ہیں؟
حکومت کی نمائندگی کرنے کیلئے اگر وزیر اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان موجود ہیں تو کیا ضرورت ہے ہمہ وقت شیخ رشید سے معیشت کی زبوں حالی اور ٹماٹروں کے مہنگے ہونے پر گفتگو کی جائے؟ کیا ان سے سیدھا سوال یہ نہیں ہونا چاہئے کہ گزشتہ 18مہینوں سے ریلوے کی بہتری اور تعمیر و ترقی کیلئے آپ نے کیا کوشش کی ہے؟ یہ آئے روز ہونے والے ریلوے کے خونی حادثات سے کس طرح بچا جا سکتا ہے اور آپ اپنی ناکامی پر مستعفی کیوں نہیں ہوتے؟ آپ نے کتنے سو میل نئی ریلوے پٹڑی بچھائی ہے، کیا آپ نے ریلوے کے محکمہ میں رشوت ستانی کا خاتمہ اور میرٹ پر بھرتیوں کو رواج دیا ہے؟
اپنے قانون و انصاف کے وزیر فروغ نسیم سے پوچھا جائے کہ عوام کو انصاف دینے کیلئے آپ کی وزارت نے کیا کیا اقدامات کیے ہیں اور یہ کہ خیبر سے کراچی تک لاقانونیت اپنے عروج پر کیوں ہے، آپ عدلیہ، محکمہ پولیس اور عدل و انصاف کے دیگر اداروں کو انصاف دینے کے لئے کس طرح پابند کر رہے ہیں؟
فیصل واوڈا واٹر ریسورسز کے وفاقی وزیر ہیں ان سے سوال کیا جائے کہ پاکستان میں پانی کی بڑھتی ہوئی قلت سے نبرد آزما ہونے کیلئے آپ نے کیا کیا اقدامات کیے، کون سے نئے منصوبے بنائے، یہ بھی بتائیں کہ نئے ڈیمز کے کیا کیا منصوبے ہیں۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے فقط یہ پوچھا جائے کہ اٹھارہ مہینے میں آپ کی ذاتی یا آپ کی وزارت کی کیا کارکردگی ہے، بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی، لندن میں 20سے 25ہزار افراد نے انڈین ہائی کمیشن کے سامنے مظاہرے کیے لیکن پاکستان میں آج تک اس معاملہ پر پانچ دس ہزار لوگ بھی ایک جگہ اکٹھا کیوں نہ ہو سکے، حکومت صرف مذمتی بیان جاری کرنے پر اکتفا کیوں کر رہی ہے؟
فواد چوہدری سے استفسار کیا جائے کہ وہ اپنی وزارتِ سائنس و ٹیکنالوجی میں کون کون سے انقلاب لے کر آئے ہیں۔ زبیدہ جلال نے ڈیفنس پروڈکشن اور فہمیدہ مرزا نے اپنے اپنے شعبے میں کیا کیا کام کیے ہیں کیونکہ یہ لوگ جب کبھی میڈیا پر آتے ہیں، مخالفین پر تنقید کے سوا کوئی بات اپنے محکموں کی نہیں کرتے۔ کیا کسی نے دیکھا اور سنا کہ پرویز خٹک نے کبھی دفاع یا دفاعی منصوبوں پر بات کی ہو؟
صحافی اور اینکرز بھی ہر وزیر سے بس سیاسی سوالات کرتے ہیں۔ اب عمر ایوب پاور اینڈ پیٹرولیم اور میاں ممد سومرو پرائیویٹائزیشن کے وزیر ہیں، ان سے آٹے کے بحران اور چینی مہنگی ہونے کے معاملات پر سوال کرنے کی کیا ضرورت ہے بھلا؟
حالت یہ ہے کہ اب کوئی اسٹیل مل کا کیس نہیں اٹھاتا، ایک کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ گھروں کے خوش کن نعرے بھی قصہ پارینہ ہو چکے۔ وزیراعظم ہائوس اور گورنر ہائوسز کو یونیورسٹیاں بنانے کے وعدے بھی ’’یوٹوپیا‘‘ ثابت ہوئے لیکن حکومتی وزیر ہیں کہ بڑے دھڑلے سے ہر چیز کا جواز منفی انداز میں دے کر اپنا تماشا بنا رہے ہیں، یعنی اس بات کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں کہ حکومت میں بیٹھے لوگوں کا احتساب کیوں نہیں ہو رہا، حکومت اتحادیوں کے ہاتھوں یرغمال ہے، ساری کی ساری توانائی مفاداتی ٹولے کو منانے میں لگی ہے، عوام کیا ہوتے ہیں، ان کی ضروریات و مسائل کیا ہیں، اس سے کسی کو غرض نہیں۔
حکومت ہو یا اپوزیشن، کسی کو اقتدار بچانے اور کسی کو گرانے کی فکر ہے لیکن اداروں کے ایک پیج پر ہونے کے باوجود غریب کی قسمت بدلی ہے نہ مجبور کا حلیہ۔ یہ درست ہے کہ ریاست کا چوتھا ستون میڈیا بھی حکومتی پالیسیز کی وجہ سے زخم زخم ہے!!
یہ بھی درست کہ حکومت کی کوئی حکم نہ ماننے والی نوکر شاہی بھی مافیا ہے، مہنگائی کے خلاف اور الٹے سیدھے حکومتی قوانین کے خلاف ہڑتال کرنے والا تاجر طبقہ بھی مافیا، وکلاء اور ڈاکٹر بھی مافیا حتیٰ کہ وزیراعظم کی ثنا نہ کرنے والا ہر شخص اور ادارہ بھی مافیا ہی کہلوائے گا۔
سوال کرنے والا میڈیا کو بھی مافیا کا تمغہ عنایت ہو چکا لیکن پھر بھی میڈیا کا کام سوال کرنا ہے اور میڈیا کو ہر صورت یہ کرنا ہے لیکن گزارش یہ ہے کہ جس کی جو وزارت ہو، اس سے سوال بھی اس کی وزارت کے ضمن میں کیا جائے۔ وزیر کی یہ ڈیوٹی ہے کہ وہ اپنی وزارت کی کامیابی و ناکامی پر جوابدہ ہو، کیونکہ خان صاحب! سوال تو ہوگا۔ آپ کی گورننس ناکامیاب اور ہر ادارہ زوال پذیر کیوں ہے، کیونکہ میڈیا معاشرے کا آئینہ ہوتا ہے اور آئینہ اگر دھندلا ہو تو میڈیا سچائی کو چھپا نہیں سکتا۔