19 جنوری ، 2020
موزیک فونسیکا جو پاناما سٹی میں قائم ایک آف شور کمپنی ہے، نے واشنگٹن ڈی سی امریکہ میں قائم ایک اچھوتی میڈیا آرگنائزیشن ’’انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹیو جرنلسٹس‘‘ کو لکھا کہ براہِ مہربانی پاناما پیپرز اسکینڈل کی لیک ہونے والی بعض دستاویزات کو شائع ہونے سے روکا جائے۔
موزیک فونسیکا نے 5مئی 2016ء کو یہ خط لکھا لیکن ’’آئی سی آئی جے‘‘ نے ایک ہفتے بعد ہی یہ اسکینڈل پوری دنیا میں لیک کر دیا، ان لیک ہونے والے 11.5ملین پیپرز میں اُس وقت کے وزیراعظم نواز شریف اور ان کے بچوں کے ناموں کے علاوہ سیکڑوں پاکستانیوں کے نام بھی شامل تھے۔
2017ء میں چیئرمین ’’نیب‘‘ نے 435 پاکستانیوں کی آف شور کمپنیوں کے بارے میں فوری تحقیقات کا حکم دیا۔ ان پاکستانیوں میں بینظیر بھٹو کے بھتیجے حسن بھٹو، رحمان ملک، صدر الدین، مرتضیٰ ہاشوانی، سیف اللہ فیملی جن کی آف شور کمپنیاں ورجن آئی لینڈ، ہائی کانگ اور سنگاپور تک پھیلی ہوئی تھیں۔ سلطان علی آلانہ، پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کے بڑے بڑے نام، کئی نامی گرامی وکلاء اور ججوں کے نام بھی شامل تھے لیکن یہ بات حیرت انگیز تھی اور افسوسناک بھی کہ نواز شریف کے سوا کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی اور آج یہ تمام افراد اُسی طرح ’معصوم‘ ہیں جیسے جرم ثابت ہونے سے پہلے ملزم معصوم ہوتا ہے۔
پاکستان کے قانون و انصاف فراہم کرنے والے پاکستانی اداروں کے لیے یہ صورتحال یقینی طور پر ایک سوالیہ نشان ہے کہ کیا 13سال پہلے ہونے والے ’’این آر او‘‘ کی طرح پاناما پیپرز کے 434 ملزموں کو معصوم قرار دے دیا گیا ہے؟
ذرا ’’این آر او‘‘ کی کہانی بھی ملاحظہ ہو جو وزیراعظم عمران خان کے ’’کسی کو نہیں چھوڑوں گا‘‘ کے فلسفے کیلئے بھی لمحہ فکریہ ہے۔ یہ قومی مفاہمتی فرمان 5 اکتوبر 2007ء کو اُس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف نے امریکی ایما پر محترمہ بینظیر بھٹو کے ساتھ حکومتی مفاہمت ممکن بنانے کیلئے جاری کیا تھا۔
اس کے مطابق جنوری 1986ء سے 12اکتوبر 1999ء کے دوران ہر قسم کی مالی لوٹ کھسوٹ میں ملوث سیاستدانوں کو حکومت نے قومی مفاہمت کے نتیجہ میں معاف کر دیا ہے۔ اکتوبر 2009ء کو جب آصف علی زرداری صدر تھے، انہوں نے اس فرمان کو پارلیمنٹ کے سامنے پیش کرکے اس کی حیثیت کو قانونی بنانا چاہا تو پاکستان مسلم لیگ (ن) نے اس پر عوامی رائے عامہ ہموار کرنے کی بات کی البتہ چند ہی مہینے بعد سپریم کورٹ نے اس ’’این آر او‘‘ کو غیر آئینی قرار دے کر اس کی حیثیت ختم کر دی لیکن اس کے باوجود آج تک ان ’’این آر او‘‘ کے آٹھ ہزار معصوموں سے ’’نیب‘‘ یا کسی احتسابی ادارے نے کسی قسم کی پوچھ گچھ نہیں کی!
پاناما اسکینڈل اور این آر او کے جن 8434 معصوموں نے اس ’عام معافی‘ سے فائدہ اٹھایا ان میں مذکورہ افراد کے علاوہ مرحومہ بینظیر بھٹو، آصف علی زرداری، بانی متحدہ الطاف حسین، رحمٰن ملک، حسین حقانی، عشرت العباد، قومی اسمبلی کے 152اور سینیٹ کے 34’’معزز‘‘ ارکان بھی شامل ہیں۔
ان تمام پر ملکی خزانہ لوٹنے اور کرپشن کے الزامات تھے، ان کے علاوہ بہت سے سیاستدان، سیاسی کارکن، بیورو کریٹس جن کی تعداد ہزاروں میں ہے، ان میں منی لانڈرنگ، غبن، بھتہ خوری یہاں تک کہ دہشت گردی کے ملزم بھی شامل ہیں، جو اب ’’این آر او‘‘ کی چھتری تلے شریف و باوقار شہری ہیں۔ ان لوگوں نے ملکی خزانے کو کتنے ہزار کروڑ کا نقصان پہنچایا، کتنی دولت ملک سے باہر لے کر گئے، کتنی آف شور کمپنیاں بنائیں، کس کس کے اربوں کھربوں کے سوئس اکائونٹس ہیں، آج کسی حکومتی ادارے یا خود حکومت کو بھی اس سے کوئی غرض نہیں ہے۔
کوئی برطانیہ میں پاکستان کے سابق ہائی کمشنر واجد شمس الحسن سے بھی یہ نہیں پوچھتا کہ بھائی صاحب! آپ نے سوئٹزر لینڈ جاکر خفیہ طور پر بینظیر بھٹو اور آصف علی زرداری سے متعلق دستاویزات کے 12باکس کیوں اور کس کے حکم پر ضائع کر دیے تھے، کیونکہ اس وقت یہ خدشہ موجود تھا کہ اگر این آر او کا فرمان متروک قرار دے دیا گیا تو تمام مقدمات دوبارہ شروع ہو سکتے ہیں۔
بعد ازاں یہ خدشہ اس وقت درست ثابت ہوا جب سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ یہ تمام مقدمات دوبارہ کھولے جائیں گو کہ یہ حکم آج بھی برقرار ہے لیکن چنیدہ احتساب کرنے والے قومی ادارے چپ ہیں اور قوم بھی یہ اسیکنڈل بھلا کر آگے بڑھ چکی ہے۔
ہمیں یاد ہے کہ کوئی چار سال قبل جنرل راحیل شریف نے کرپشن کے خلاف بیانات دیے تو ملکی سیاست میں ایک ہلچل مچ گئی لیکن یہ تمام تر اضطراب فقط ایک نکتے پر مرکوز رہا یعنی نواز شریف فیملی کے آف شور اکائونٹس اور بس۔
میڈیا سمیت کوئی بھی ادارہ اس وقت اور نہ آج 8ہزار این آر او کے معصومین کی بات کرتا ہے اور نہ پاناما پیپرز میں آنے والے 434افراد کا نام لیتا ہے۔ چنانچہ اگر موجودہ حکومت بلا امتیاز احتساب کا نعرہ لگاتی ہے تو پھر بددیانت افراد اور بددیانتی کے خلاف احتساب پہلے اپنے گھر سے شروع کرے اور پھر ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ اگر مقدس گائے نہ کوئی ادارہ ہے اور نہ کوئی عہدہ یا شخص، تو پھر احتساب کا دائرہ کار اندرون ہی نہیں بیرونِ ملک بھی پھیلایا جائے اور لندن، دبئی، امریکہ، آسٹریلیا، کینیڈا اور یورپ کے کئی ملکوں کی محفوظ جنتوں میں عیش کرنے والے لٹیروں کو بھی پاکستان واپس لا کر کٹہرے میں کھڑا کیا جائے۔
اگر ایسا نہ کیا گیا تو پھر ’’این آر او‘‘ کے پرانے آٹھ ہزار، پاناما کے 434معصوموں میں کئی نئے ’معصومین‘ کا اضافہ ہوگا چنانچہ معصومیت کا یہ قافلہ یونہی رواں دواں رہے گا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)