بلاگ
Time 22 فروری ، 2020

عنقا ہے وہ طائر کہ دکھائی نہیں دیتا

فوٹو: فائل

گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو بہت وائرل ہوئی جس میں ایک خاتون نے ایک ٹریفک کانسٹیبل کو پنجابی درست بولنے پر غلط انگریزی میں ڈانٹ دیا۔

اپنی زبان کے ساتھ تحقیر کا یہ موقع کوئی نیا نہیں تھا، ہم نے اس تنزلی تک پہنچنے میں دہائیاں صرف کی ہیں، ہم یہ سمجھنے سے قاصر رہے کہ مادری زبان اثاثہ ہوتی ہے، اسلوب ہوتی ہے، اسلاف کا ورثہ ہوتی ہے، زبان صرف اظہار کا ذریعہ نہیں ہوتی بلکہ رہن سہن، سوچ، علم و ادب ، ثقافت کی غماز ہوتی ہے، یہ بزرگوں کی دین ہوتی ہے، یہ شاعروں کا لہجہ ہوتی ہے۔

یہ قلم کاروں کا تحفہ ہوتی ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ ہمیں اپنی مادری زبانوں کے فروغ کی ضرورت پڑی ہے، 21 فروری سے اسلام آباد میں انڈس کلچرل فورم کی جانب سے پانچویں سال ہونے والا پاکستان کی مادری زبانوں کا ادبی میلہ اسی سلسلے کی کڑی ہے، یہ فورم کسی ایک زبان کی نہیں بلکہ ملک بھر کی تمام زبانوں کی یکساں حیثیت کے لئے کوشاں ہے ۔

اپنی زبانوں کے ساتھ جو تعصب ہم نے برتا ہے اس کی مثال کسی اور قوم میں نظر نہیں آتی، اقوام عالم اپنی زبانوں پر فخر کرتی ہیں، ہم شاید دنیا کی واحد قوم ہیں جو اپنی زبان کے حوالے سے احساس کمتری کا شکار ہیں۔

یہ لسانی تعصب علاقائی/ صوبائی زبانوں سے ہوتا ہوا ہماری مادری اور قومی زبان تک در آیا ہے، ہمارے ہاں درست لہجے میں اردو بولنے والا پنجابی، پشتو، سندھی ، بلوچی، براہوی اور سرائیکی بولنے والے کو گنوار سمجھتا ہے۔

جو انگریزی بول سکتے ہیں وہ اردو میں کلام کرنے والوں کو جاہل گردانتے ہیں، ہمارے ہاں ایک خاص درجے کے بعد تعلیم کا سارا سلسلہ انگریزی میں ہے۔

ہم نے جانے کیسے تصور کر لیا ہے کہ انگریزی زبان ترقی کا زینہ ہے، انگلش زبان کی وسعت اور بین الاقوامی اہمیت سے انکار ممکن نہیں، لیکن کیا اس وسیع زبان انگریزی سے ترقی یا فتہ ممالک کا بھی یہ ہی رویہ ہے؟

آپ فرانس چلے جائیں خال خال ہی کوئی شخص ملے گا جس کو انگریزی کی بنیادی سدھ بدھ بھی ہو،بلکہ فرانس میں تو انگریزی بولنا بدمذاقی اور بد اخلاقی میں آتا ہے، جرمنی نے بھی انگریزی زبان کے بغیر ترقی کر لی۔ جاپان میں بھی کم کم ہی کوئی انگریزی سمجھتا ہے۔

چین میں انگریزی بولنے والا ڈھونڈنا ایک عذاب ہے، اٹلی میں بھی انگریزی ایسے بولی جاتی ہے جیسے زبانِ فرنگ کو بولنے کا حق ہے، حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ لوگ اب بھی اس دلیل پر قائم ہیں کہ اردو اور ہماری علاقائی زبانیں ترقی کا ساتھ نہیں دے سکتیں۔

ایک اور المیہ یہ ہے کہ ہم نے زبان دانی کو ذہانت کا معیار بنا دیا ہے، ملازمت کے انٹرویو ہوں یا سول سروس کے امتحانات، اگر آپ اچھی انگریزی بول اور لکھ سکتے ہیں تو آپ کی ذہانت شک و شبہ سے بالاتر ہے، لیکن اگر آپ وہی مطمح نظر اردو پنجابی ،پشتو، سندھی یا بلوچی میں ادا کریں تو آپ قابل اعتنانہیں، زبان ذہانت نہیں ہوتی، زبان اظہار ہوتی ہے اور اظہار اپنی زبان میں ہی ابلاغ بنتا ہے۔

مجھے بہت سی ایسی تقریبات میں جانا ہوتا ہے جہاں مقررین کرام جی جان کی بازی لگا کر انگریزی میں خطاب کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں، لیکن جو سلوک وہ انگریزی زبان کے ساتھ کر رہے ہوتے ہیں، ایسے لوگ اگر اردو میں خطاب کریں تو بات زیادہ سہل اور بامعنی کر سکتے ہیں، سامعین بھی اردو سمجھتے ہیں، اس دو طرفہ دشواری کا حل اپنی زبان میں گفتگو کرنا ہے۔

زبان کا تعلق معاشرت اور سیاست سے بھی ہوتا ہے، اگر سول سروس کے امتحانات آج اردو زبان میں ہونے لگیں تو اس ملک کی تقدیر بدل جائے، اگر ہمارے وزراء مملکت دنیا بھر کے سربراہان کی طرح اپنی زبان میں گفتگو کریں اور مترجم کو ساتھ رکھیں تو ہمیں اپنی زبان پر فخر ہو گا، ہمیں اپنے بیان میں سہولت ہو گی،  اگر ہمارے نصاب کی کتابیں اردو میں ہوں تو نمایاں پوزیشنز حاصل کرنے والے لوگ کوئی اور ہوں، اردو میڈیم اور انگلش میڈیم کی تخصیص ختم ہو جائے۔

ہمارے اپنے گھر میں زبان کے حوالے سے اچھی خاصی اقوام متحدہ ہے، میری والدہ اہل زبان ہیں اور والد کا تعلق گجرات کے ایک پنجابی گھرانے سے ہے، دونوں فارسی کے پروفیسر رہے ہیں، دونوں کو عربی زبان پر خاصی دسترس حاصل ہے۔

میری بڑی ہمشیرہ فارسی کی پروفیسر ہیں، ہم سب اردو زبان میں گفتگو کرتے ہیں، میری اہلیہ جو صحافی بھی ہیں وہ پنجابی بولتی ہیں، اس خاندان کے سب بچے جن اسکولوں میں پڑھتے ہیں وہاں انگریزی زبان کا چلن ہے۔

ان بچوں کے لئےسب سے مشکل پیپر اردو یا اسلامیات کا ہوتا ہے، اس لسانی تقسیم سے کئی نسلیں مشکل میں پڑی ہوئی ہیں، اس کا حل اردو زبان کا سرکاری طور پر نفاذ ہی ہے۔

اردو زبان کے نفاذ پر ہر حکومت میں بحث ہوتی ہے لیکن اسکے لئےعملی اقدمات کم ہی ہوتے ہیں، سرکاری زبان اور قومی زبان میں ہم نےجو تخصیص تخلیق کر دی ہے وہ دنیا میں کہیں موجود نہیں ۔

اگر ہم اپنے قومی تشخص کو منوانا چاہتے ہیں تو اردو زبان کا سرکاری نفاذ اس کی طرف پہلا قدم ہے، اپنی زبان پر فخر اس کا نتیجہ ہے، اپنے شاعروں ادیبوں کی تکریم اس کا تحفہ ہے۔

سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہمیں اپنی زبان سے اس لئے دور رکھا گیا ہے ہمیں اپنی زبان میں بات سمجھ میں آ جاتی ہے۔

اپنے والد کے ایک قطعے پر کالم ختم کرتا ہوں

بچو یہ سبق آپ سے کل بھی میں سنوں گا

وہ آنکھ ہے نرگس کی جو ہر گز نہیں روتی

عنقا ہے وہ طائر کہ دکھائی نہیں دیتا

اُردو وہ زباں ہے کہ جو نافِذ نہیں ہوتی


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔