25 فروری ، 2020
ہمیشہ دل نے کہا عمران خان زندہ باد کہ وہ دیانت دار آدمی ہیں۔ ہوسِ زر انہیں چھو کر بھی نہیں گزری۔ جب جمائما خان اور عمران خان کے درمیان علیحدگی ہوئی تو برطانوی قانون کے مطابق عمران خان، جمائما خان کی جائیداد میں نصف کے مالک تھے مگر غیرت مند کپتان نے بلینز کی جائیداد پاؤں کی ٹھوکر سے ٹھکرا دی حتیٰ کہ اولاد کی محبت بھی اپنے محبوب وطن پر قربان کر دی۔
بنی گالہ والا گھر جس میں خود قیام پذیر ہیں، وہ بچوں کو دینے کے بجائے شوکت خانم کینسر اسپتال کو دے دیا۔ ایسی کوئی مثال اس سے پہلے پاکستان میں کہیں نہیں ملتی۔ جہاں تک شہرت کا تعلق ہے تو وہ کئی دہائیوں سے ایشیا کی سب سے معروف شخصیت ہیں۔
قدرت نے پاکستان کو ایک ایسے لیڈر سے نوازا ہے جسے کبھی کسی شے کی کوئی کمی نہیں رہی۔ جس کا مسئلہ صرف غریب عوام ہیں۔ جس کی زندگی کا مطمح نظر صرف ترقی یافتہ پاکستان ہے مگر اِس وقت یہ سلگتا ہوا سوال، جس نے ہر زبان پر چھالے ڈال دیے ہیں کہ ڈیڑھ سال ہو گئے ہیں مگر کامیابی دور دور تک کہیں دکھائی نہیں دے رہی۔ ایسا کیوں ہے۔ راستےکی دیوار کون بنا ہوا ہے۔ بڑا غور کیا۔ بہت تحقیق کی۔ وزیراعظم کے آس پاس گھومتے کرداروں کے ماضی میں جھانکا۔ اُن کے وزرا سے لمبی گفتگوئیں کیں اور اس نتیجے پر پہنچا کہ وزیراعظم کو اپنے دفتر کی ٹاپ نوکر شاہی تبدیل کرنی چاہئے۔
یہ مسئلہ نہیں کہ وہاں تعینات اہم شخص مالم جبہ ریزورٹ لیز اسیکنڈل میں پرویز خٹک کے ساتھ ملوث ہے۔ بےشک وہ خاصا اہم کیس ہے، اس میں لیز پالیسی تبدیل کرکے محکمہ جنگلات کی 270ایکڑ زمین لیز پر دے دی گئی، یہ آشیانہ اسکیم سے زیادہ خوفناک معاملہ ہے کیونکہ قانونی طور پر جنگلات کی زمین کسی صورت میں ریزورٹ کیلئے لیز پر دی ہی نہیں جا سکتی مگر یہ نیب والوں کے معاملات ہیں۔
ایک بار پشاور نیب نے وزیراعظم کے قریبی ترین بیورو کریٹ کو بلایا تھا تو وہ گئے تھے مگر انہوں نے دوسری پیشی کا موقع نہیں آنے دیا بلکہ الٹا فواد حسن فواد کی طرح بائیس گریڈ حاصل کر لیا۔ فواد حسن فواد کو بھی ان کی طرح بائیس گریڈ انہی دنوں ملا تھا جب وہ نواز شریف کے پرنسپل سیکریٹری ہوا کرتے تھے۔ اس ٹاپ بیورو کریٹ اور فواد حسن فواد کے پرانے مراسم ہیں۔ کہتے ہیں کہ وہ فواد حسن فواد سے ملاقات کیلئے جیل بھی گئے تھے۔ نیب آرڈیننس کے ترمیمی بل میں بھی اُن کا بڑا کردار ہے جس کا پہلا فائدہ فواد حسن فواد کو ملا اور وہ جیل سے باہر آ گئے۔
اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے اپنے 20/02/2020کے نوٹیفکیشن کے تحت 20/08/2018 سے ان کی بطور افسرِ بکارِ خاص تقرری کر دی۔ عموماً اس گریڈ کے افسر کی تقرری کے نوٹیفکیشن کی نقول تمام اعلیٰ ترین دفاتر بشمول وزیراعظم آفس اور ایوانِ صدر کو بھیجی جاتی ہیں جبکہ اس نوٹیفکیشن کی کاپی اے جی پی آر کے بعد صرف اسٹیبلشمنٹ سیکریٹری کو بھیجی گئی۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا وزیراعظم نے 550سے زائد دنوں کی قید کو چھٹی تبدیل کرنے کی منظوری دی یا بیورو کریسی نے اپنی سطح پر یہ کارنامہ سرانجام دیا۔
وزیراعظم آفس کی ٹاپ بیوروکریسی پر پشتون چھاپ بہت گہری ہے۔ بےشک اپنا قبیلہ اپنی نسل سب کو پیاری ہوتی ہے۔ اس کا تفاخر بھی ہوتا ہے مگر تفاخر تعصب کی حدود میں داخل نہیں ہونا چاہئے۔ اس وقت اسلام آباد میں خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے افسر بڑی تعداد میں موجود ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ جس کے نام کے ساتھ بھی خان کا لفظ لگا تھا اسے پوسٹنگ بھی مل گئی اور ترقی بھی۔ اسی بات کی گونج وفاق کے تمام دفتروں میں پھیلی ہوئی ہے کہ پیپلز پارٹی کے ادوار میں سندھی بیورو کریٹس اور نون لیگ کے ادوار میں کشمیری اور پنجابی بیورو کریٹس کا جادو سر چڑھ کر بولتا رہا۔ لگتا ہے موجودہ حکومت بھی پٹھانوں کو اہم عہدوں پر ترقی دے کر پچھلی حکومتوں کے نقشِ قدم پر چل رہی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ آج کے طاقتور ترین بیورو کریٹ کا اس سے پہلے وفاق یا پنجاب کی بیورو کریسی سے کوئی تعلق نہیں رہا۔ ان کی ساری سروس پختونخوا کی ہے۔ وہ دو بار قائم مقام چیف سیکریٹری کے پی، ایڈیشنل چیف سیکرٹری فاٹا، سیکریٹری کھیل، سیاحت اور نوجوانوں کے امور، سیکرٹری داخلہ اور قبائلی امور اور کمشنر پشاور رہ چکے ہیں۔ انہیں اندازہ ہی نہیں پنجاب یا وفاق میں کیسے گورننس کرنی ہے۔
بےشک عمران خان کے نام کے ساتھ خان کا لفظ آتا ہے مگر ان کا تعلق پنجاب سے ہے۔ عمران خان کو چاہئے کہ وہ اس تاثر کو زائل کرائیں تاکہ پنجابی، بلوچی، سندھی اور کشمیری بیورو کریسی میں جو تذبذب پیدا ہو چکا ہے اس کی شدت میں کمی آئے۔
اطلاعات کے مطابق جہانگیر ترین اور عمران خان میں اختلافات کے پسِ منظر میں بھی یہی شخصیت ہے۔ دونوں کے درمیان کسی معاملے میں تلخ کلامی ہوئی تو پہلے کچھ وزرا کو ساتھ ملایا پھر ای سیون کے کسی مکان میں خفیہ رپورٹ تیار کرائی گئی اور اسے عمران خان تک پہنچا دیا گیا۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ بہت جلد عمران خان معاملے کی تہہ تک پہنچ جائیں گے۔ ویسے جہانگیر ترین نےاختلافات کی تردید کی ہے اور کہا کہ ہم سب وزیراعظم عمران خان کی ٹیم ہیں، فیصلہ انہی کا ہوتا ہے۔
دل ابھی تک عمران خان زندہ باد کہہ رہا ہے مگر دماغ؟ ایک حریفانہ کشمکش جاری ہے۔ میں دل کی فتح مندی کیلئے دعاگو ہوں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔