سینیٹ کے بعد قومی اسمبلی میں بھی زینب الرٹ ترمیمی بل کثرت رائے سے منظور

سینیٹ کے بعد قومی اسمبلی میں بھی زینب الرٹ ترمیمی بل کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا۔

وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے سینیٹ میں ہونے والی ترامیم کے ساتھ زینب الرٹ بل قومی اسمبلی میں پیش کیا۔ 

بل کے مطابق بچے کو اغواء کرنے، قتل کرنے اور ہوس کا نشانہ بنانے پر عمر قید اور موت کی سزا دی جائے گی جبکہ ضلع کا سیشن جج خصوصی طور پر کیس مجسٹریٹ یا جج کے حوالے کرے گا جو اسے 3 ماہ میں نمٹا دے گا۔

سینٹ ترامیم میں کہا گیا ہے کہ پولیس 2 گھنٹے کے اندر بچے کے اغواء یا لاپتہ ہونے کی ایف آئی آر درج کرے گی، کیس کی تحقیقات کرنے والے پولیس افسر کو ضابطہ فوجداری کے تحت اختیارات حاصل ہوں گے جو پولیس افسر بچے کی گمشدگی کی ایف آئی آر کے اندراج میں تاخیر کرے گا یا رکاوٹ ڈالے گا اسے 2 سال تک سزا اور ایک لاکھ روپے جرمانہ ہوگا۔

بل میں تعزیرات پاکستان کے تحت 18 سال سے کم عمر بچے کے خلاف جرائم سے متعلق سیکشنز شامل کی گئی ہیں۔ 

قومی اسمبلی میں بل میں ترمیم پیش کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے خواجہ آصف نے کہاکہ بل کی نیت اور مقاصد پر کوئی شک نہیں، قانون سازی پر عملدرآمد ہونا چاہیے۔

اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے کہاکہ آپ کی ترمیم تاخیر سے موصول ہوئی لہٰذا شامل نہیں کر سکتے۔ 

بعدازاں بل کو قومی اسمبلی میں کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا جس کے بعد اس کا اطلاق پورے ملک میں ہوگا۔ 

جماعت اسلامی کے مولانا اکبر چترالی نے بل کی مخالفت میں ووٹ دیا۔ ان کا مؤقف  تھا کہ بچوں سے زیادتی کرنے والے افراد کو بچایا جارہا ہے۔

خیال رہے کہ سینیٹ میں بھی جماعت اسلامی نے بل کی مخالفت کی تھی جس کی وجہ بچوں سے زیادتی پر بل میں سزائے موت کی شق شامل نہ کرنا ہے۔

یاد رہے کہ 10 جنوری 2020 کو قومی اسمبلی نے زینب الرٹ بل منظور کیا تھا جس کا اطلاق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ہونا تھا تاہم بعد ازاں 4مارچ کو سینیٹ میں بل منظور کیا گیا جس کا اطلاق پورے ملک میں ہوگا۔

مزید خبریں :