بلاگ
Time 13 مارچ ، 2020

کچھ سیکھ ہی لیتے

— فائل فوٹو

اس سے قبل روزنامہ جنگ میں اپنے کالم میں بھی لکھ چکا ہوں کہ ہم پاکستانی عموماً تاریخ اور پڑوس سے کبھی کچھ سیکھنا نہیں چاہتے۔ فی الحال اس مختصر تحریر میں میر شکیل الرحمان کی گرفتاری کے حوالے سے زیادہ زور تاریخ پر ہے۔

کسی بھی معروف و غیر معروف تنازع کی صورتحال میں ہم جیسوں کے لیے اپنے کسی افسر یا اِمپلائر کی تائیدو حمایت کرنا سب سے مشکل کام ہوتا ہے۔ کیا کریں، شاید پیشہ ورانہ تربیت میں کوئی خلل رہ گیا تھا۔ گذشتہ چند دہائیوں میں جنگ گروپ یا گروپ سے متعلق شخصیات کا موقف بارہا اپنے مخالفین یا فریقین کے موقف کے مقابلے درست یا بہتر محسوس ہوا، جنگ گروپ کا حصہ ہونے کے سبب کبھی کھل کر اس حمایت کا اظہار نہیں کیا۔ 

لیکن اس بار اِس “خاص صورتحال” میں شاید کسی بھی شخص کو میر شکیل الرحمان کی گرفتاری کے پس پردہ معاملات کے “کچھ اور ہونے” کا اندازہ اچھی طرح ہوسکتا ہے۔ اِس لمحے اِن کی حمایت میں باآسانی ایک طویل مضمون بھی لکھا جاسکتا ہے اور اسے شائع بھی کرایاجاسکتا ہے لیکن یہاں اس تحریر کا بنیادی مقصد اپنے “امپلائر” کی حمایت سِرے سے ہے ہی نہیں۔ 

اس پورے مضمون میں کسی کو میر صاحب کی حمایت میں لکھا ایک لفظ بھی نہیں ملے گا۔ نہ کہیں ان کی تعریف ملے گی اور نہ ہی ان کی قانونی یا اخلاقی پیروی۔ یہاں صرف پڑھنے والوں کی یاد دہانی کے لیے اُس تاریخ کے چند اوراق اُلٹنا پَلٹنا چاہتا ہوں جہاں ماضی اور حال کے فیصلے ہمیشہ ایک سے ہو تے ہیں۔ بس انتظار شرط ہے۔

گزشتہ سات دہائیوں کے مختلف سیاسی ادوارِ میں جنگ گروپ اور دیگر خبر رساں اداروں کو درپیش مسائل اور دباؤ کی واقعاتی تفصیل میں جائے بغیر، یہاں دہرانا صرف یہ ہے کہ ایک وقت تھا کہ جنرل ایوب خان اپنے دور آمریت میں جنگ کے تمام صفحات پر اپنی اور اپنی حکومت کی جھوٹی تعریفیں چھپی دیکھنا چاہتے تھے۔ کچھ ناراض بھی رہے۔ اور پھر ہوا یوں کہ اقتدار کی طاقت خاک ہوئی اور ایوب خان انتہائی تکلیف اور خوف کی حالت میں دنیا چھوڑ گئے جب کہ روزنامہ جنگ نہ صرف قائم و دائم رہا بلکہ اس کی مقبولیت میں بھی اضافہ ہوتا رہا۔

ذوالفقار علی بھٹو کا اپنے دور اقتدار میں بس چلتا تو دیگر اخبارات کے ساتھ ساتھ، وہ جنگ کو بھی ہمیشہ کے لیے بند کردیتے۔ لیکن ہوا یوں کہ تاریخ کے ایک فیصلے کے تحت بھٹو کے ماورائے عدالت قتل کی خبر جنگ ہی نے بریک کی، اور اشاعت کا یہ ادارہ بھٹو کے بعد بھی مستقل پھلتا پھولتا رہا۔  آج بھی جنگ سے تعلق رکھنے والے صحافی کی دی ہوئی خبر ہی دراصل خبر سمجھی جاتی ہے۔

جنرل ضیاالحق اپنے دورِ حاکمیت کے دوران جنگ گروپ کو اپنی خواہش کے تحت غالبا اپنی تشہیر کا ذریعہ اور روزنامے کو اپنی جاگیر بنانا چاہتے تھے۔ درحقیقت اب وہ دارالحکومت کے ایک پر فضا مقام پر خاموشی سے آرام فرما ہیں، جب کہ جنگ گروپ نے ان کے دور کے خاتمے کے چند ہی برس بعد انگزیزی اخبار “دی نیوز” لانچ کرکے ادارے کو قابل ذکر حد تک وسعت دی۔ ضیا الحق شہید ہیں یا نہیں، جنگ کا کارکن غازی ضرور ثابت ہوا۔

میاں نواز شریف نے نوّے کی دہائی کے آخری برسوں میں جنگ کو دبانے اور ڈرانے کے لئے ہر طریقہ اور ہر حربہ استعمال کرلیا۔ لیکن آج صورتحال یہ ہے کہ میاں صاحب کی اپنی اور ان کے خاندان کی زندگیاں ملک سے باہر یا جیل کے اندر معافیوں تلافیوں کی بنیاد پر گذر رہی ہیں۔ لیکن دوسری جانب اس تنازع کے صرف تین برس بعد گروپ میں پاکستان کے سب بڑے اور بااثر نیوز ٹی وی چینل جیو نیوز کا اضافہ ہوا۔ اس چینل کا با اثر ہونا بہت سوں کو ہضم نہیں ہوا، لہذا آزادی صحافت سے ڈرنے والے تمام عناصر آج بھی چینل کے با اثر ہونے کو ماننا نہیں چاہتے۔

جنرل مشرف کے دور میں جیو نیوز کی نشریات پر بندش کے واقعات بھلا کون بھول سکتا ہے۔ آج جنرل صاحب یقینا اُس لمحےکو کوستے ہوں گے جب اُنہیں پہلی بار نیوز چینلز کی نشریات پر پابندی کا پہلا مکروہ اور مجرمانہ خیال آیا تھا۔

ماضی میں ایک سے زیادہ سیاسی پارٹیاں جنگ کے دفاتر پر دھاوا بول چکی ہیں، جنگ کی عمارت پر قبضہ کرچکی ہیں یا جنگ گروپ سے وابستہ صحافیوں کو نشانہ بنا چکی ہیں؛ لیکن آج ان جماعتوں کے رہ نما جیو پر اظہار خیال کے لئے چند لمحات مل جانا یقیناً اپنی خوش قسمتی سمجھتے ہیں۔

اور اب ذکر کچھ “آج” کے دن کا کہ جب عمران خان وزیر اعظم ہیں اور نیب کا انتہائی طاقتور ادارہ اپنی بھرپور جوبن پر “اپنی” کارروائیوں میں سرگرم ہے، اور میر شکیل الرحمان گرفتار ہیں۔

اب اگر کسی کو شک ہے کہ کس کے مستقبل میں کیا لکھا ہے، تو وہ اسی تحریر میں درج اوپر کی چند سطروں کو دوبارہ پڑھ لے؛ ایسا کرنے پر وہ باآسانی اندازہ لگا سکتا ہے کہ تاریخ خود کو دہراتی ہو یا نہیں، پلٹ کر حملہ ضرور کرتی ہے۔ بھر پور اور فیصلہ کن حملہ؛ اور اس حملے میں صرف وہی بچتا ہے جو کم از کم اپنے حریف کے مقابلے میں زیادہ درست ہو۔

ہم وہ قوم ہیں جو تاریخ اور پڑوس سے کبھی کوئی کام کی بات نہیں سیکھ سکے۔ اس بار امید تھی، لیکن نئے پاکستان کے خوابی تصورات کے ساتھ ساتھ یہ امید بھی مدھم پڑتی جارہی ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔