16 مارچ ، 2020
سپریم کورٹ نے خیبر پختونخوا میں ماتحت عدلیہ کے 13 ججز کی جبری برطرفی کے فیصلے کو کالعدم قرار دیدیا۔
خیبر پختونخوا میں ماتحت عدلیہ کے ججز کی برطرفی کے کیس کی سماعت چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے کی۔
جوڈیشل ٹربیونل نے خیبر پختونخوا کے 13 ججز کی برطرفی کو جبری ریٹائرمنٹ میں تبدیل کر دیا تھا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جج شاہ حسین کے اثاثوں میں 2 سال میں تین گنا اضافہ ہوا، جج کے اثاثے سینئر سول جج بننے تک 64 لاکھ سے بڑھ کر 3 کروڑ50 لاکھ سے زائد ہو گئے۔
وکیل جج شاہ حسین نے کہا کہ آمدن سے زائد اثاثوں کا الزام شوکاز میں نہیں لگایا گیا، میرے موکل نے پرفارمہ میں اپنی جائیداد کی مارکیٹ ویلیو بتائی، اثاثے وہی تھے لیکن مارکیٹ ویلیو زیادہ بتائی گئی۔
چیف جسٹس پاکستان نےکہا اثاثوں کی مارکیٹ ویلیو بتانے کا کہاں لکھا ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ججز کی ساکھ کے بارے میں مسلسل 3 سال سے رپورٹ میں شک و شبہ کا اظہار کیا گیا۔
عدالت نے ججز کی جبری برطرفی کو کالعدم قرار دیا اور معاملہ دوبارہ جوڈیشل سروسز کو بھجواتے ہوئے ٹربیونل کو تین ماہ میں ماتحت عدلیہ کے ججز کی اپیلوں پر فیصلہ کرنےکا حکم دیا۔
عدالت نے حکم دیا کہ جوڈیشل ٹربیونلز ججز کی اے سی آر کے ساتھ اثاثوں میں اضافے کے معاملے کا جائزہ لیں۔