بلاگ
Time 17 مارچ ، 2020

پچھلے دو دن سے یہی سوچ رہا ہوں!

ملک بھر میں میر شکیل الرحمان کی گرفتاری کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے جارہے ہیں— 

12مارچ، سہ پہر ساڑھے چار بجے، جیو ٹی وی پروگرام ’رپورٹ کارڈ‘ کی ریکارڈنگ جاری، اچانک میرے ساتھ بیٹھے سلیم صافی نے اپنا موبائل فون میری طرف کھسکایا، چہرہ کیمرے سے ہٹائے بنا میں نے آنکھیں گھما کر دیکھا، ایک ٹی وی چینل کے بریکنگ نیوز والا اسکرین شاٹ، جیو، جنگ، نیوز کے مالک میر شکیل الرحمٰن کو نیب نے گرفتار کر لیا!

میں نے سامنے کیمرے کی طرف دیکھتے ہوئے لمبی سانس لی، سوچا، انکوائری نہ ریفرنس دوسری پیشی پر ہی گرفتاری، اگلے دو چار منٹوں میں ’رپورٹ کارڈ‘ کے سب شرکا کو اس خبر کا پتا چل گیا، ریکارڈنگ رکی، بھانت بھانت کے تبصرے، یہ گرفتاری آج ’رپورٹ کارڈ‘ کا حصہ ہونی چاہئے یا نہیں، 10پندرہ منٹ اسی بحث میں گزر گئے، آخرکار فیصلہ ہوا، گرفتاری پروگرام کا موضوع نہیں ہو گی، ریکارڈنگ دوبارہ شروع ہوئی، ریکارڈنگ ختم ہوئی، ہم نیچے دفتر میں آکر بیٹھے، یہیں بیٹھے بیٹھے پتا چلا، کل لاہور میں میر شکیل الرحمٰن کو احتساب عدالت میں پیش کرکے نیب ریمانڈ لے گا، یہیں بیٹھے بیٹھے میں نے فیصلہ کیا، مجھے کل لاہور جانا چاہئے۔

اگلی صبح 6 بجے بذریعہ موٹروے لاہور کیلئے نکلا، بھیرہ کے قریب پہنچ کر حامد میر سے بات ہوئی، پتا چلا وہ اسلام آباد مظاہرے میں شرکت کیلئے لاہور جاتے آدھے رستے سے واپس مڑ چکے، 10بجے موٹروے سے اتر کر لاہور میں داخل ہوا، نیب دفتر کے باہر صحافی کیمروں سمیت کھڑے نظر آئے، ابر آلود موسم، برس چکی بارش، لاہور کی سڑکوں پر حیرت کی حد تک کم رش، نہر کے ساتویں انڈر پاس سے مال روڈ پر چڑھا، مال روڈ سے احتساب عدالت کی طرف مڑا، کنٹینرز، خار دار تاریں، پولیس ہی پولیس، گاڑی سے اترا، جگہ جگہ سڑک پر کھڈے، کھڈوں میں بارش کا پانی، بچتا بچاتا چار ناکوں سے گزر کر احتساب عدالت کے احاطے میں داخل ہوا، پولیس، وکیل، صحافی ٹولیوں میں کھڑے، لمبا برآمدہ گزار، سیڑھیاں چڑھ کر اوپر والی منزل پر احتساب عدالت 4 میں داخل ہوا۔

پتا چلا میر شکیل الرحمٰن کو لایا جا چکا، اس وقت وہ احتساب عدالت کے ملحقہ کمرے میں اپنے وکیل اعتزاز احسن کے ساتھ، عبدالقیوم صدیقی، ارشد انصاری، رئیس انصاری، بلال غوری، انجم رشید سے ملتے ملاتے کھچا کھچ بھری احتساب عدالت کے ملحقہ کمرے میں داخل ہوا، آگے سہیل وڑائچ، انصار عباسی بیٹھے ملے، یہاں پہنچ کر پتا چلا اس کمرے سے جڑا ایک اور کمرہ، جس میں میر شکیل الرحمٰن اور اعتزاز احسن، چند منٹوں بعد پتا چلا احتساب عدالت چار کے جج امیر محمد خان آگئے، پہلے اعتزاز احسن اپنی وکلا ٹیم کے ساتھ نکلے پھر میر شکیل الرحمٰن باہر آئے، مجھ سے ملتے ہوئے وہ حسبِ عادت مسکرائے مگر مجھے پتا چل گیا کہ آج مسکرانے کیلئے انہیں کتنی محنت اور کتنی کوشش کرنا پڑی۔

احتساب عدالت میں تل دھرنے کی جگہ نہ تھی، جج صاحب، سامنے اعتزاز احسن اور نیب کے وکیل، جج کی بائیں جانب کٹہرے میں میر شکیل الرحمٰن، ان کے پیچھے ان کے دونوں بیٹے، ان کے پیچھے پولیس اہلکار، پولیس اہلکاروں کی بائیں جانب سہیل وڑائچ، رئیس انصاری، ذرا آگے اعتزاز احسن کے بالکل پیچھے میں پھنس کر کھڑا ہوا، اعتزاز احسن کے دلائل شروع ہوئے، جلد ہی پتا چل گیا کہ چوہدری صاحب بڑھاپے کی زد میں، دلائل جاندار نہ پہلے والی روانی، چوہدری صاحب نے دو مرتبہ پانی پیا، پانی پیتے مسلسل کانپتے ہاتھ، چوہدری صاحب کے نیب ریمانڈ مخالف اور رہائی کے حق میں دلائل ختم ہوئے، نیب وکیل نے ریمانڈ کے حق میں دلائل دیے۔

 دو گھنٹے کی سماعت کے بعد احتساب عدالت چار کے چودہویں جج امیر محمد خان نے زیرِ لب مسکراتے ہوئے میر شکیل الرحمٰن کا 12روزہ ریمانڈ دے دیا، اسی لمحے لاہور کے ایک مقامی لیگی سیاستدان نے میر شکیل الرحمٰن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا سر مریم نواز کا پیغام، ہم آپ کے ساتھ، انہی لمحوں میں اعتزاز احسن نے جج سے میر شکیل الرحمٰن کیلئے دوائیاں، گھر کے کھانے، آکسیجن مشین کی اجازت لی، اب پولیس اہلکار آگے بڑھے، میر شکیل الرحمٰن کو گھیر ے میں لیا، انہیں لے کر احتساب عدالت سے باہر نکلے، صحافیوں کی نعرے بازی شروع ہوئی، کورٹ رپورٹروں کے سوالات کے جواب دیتے دیتے میر شکیل الرحمٰن گاڑی میں بیٹھے۔

 صحافیوں کے گھیرے میں رینگتی گاڑی احتساب عدالت سے نکل گئی، میں ابھی تک احتساب عدالت میں ایک دیوار سے لگ کر کھڑا، عدالت میں رش چھٹ چکا، جج صاحب اگلا مقدمہ سن رہے، ایک ملزم، چار وکیل، دو چار لوگ، میں باہر آیا، احاطہ صحافیوں، وکیلوں سے بھرا ہوا، واپس مڑا، احتساب عدالت کے پیچھے گیٹ سے نکل کر سڑک پر آیا، ڈرائیور کو فون کیا، گاڑی میں بیٹھ کر مال روڈ پر آیا، مال روڈ، جہاں کٹہرے میں کھڑے میر شکیل، دلائل دیتے وکیل، دلائل سن کر اپنے اسٹینو گرافر کو لکھواتے جج، نعرہ زن صحافیوں سے بےنیاز ٹریفک رواں دواں۔

میرا یہ ماننا ہر شخص قابلِ احتساب، ہر شخص جوابدہ، قانون کی نظر میں سب برابر، کوئی قانون سے بڑا نہیں، میرا یہ ماننا، کسی سیاستدان کو پکڑنے سے جمہوریت خطرے میں نہیں پڑتی، کسی تاجر کو پکڑنے سے معیشت خطرے میں نہیں پڑتی، کسی صحافی کو پکڑنے سے صحافت، آزادیٔ رائے خطرے میں نہیں پڑتی، اب اسے چھوڑیں، کئی وزیر، مشیر ایسے جنہیں مضبوط کیسوں، توانا ثبوتوں کے باوجود پوچھا نہیں جا رہا، کئی چہیتے انکوائریوں، ریفرنسوں کے مرحلوں پر پہنچ کر بھی گرفتاری سے کوسوں دور۔

 اسے بھی چھوڑیں، عمران خان کہہ چکے میر شکیل میں تمہیں چھوڑوں گا نہیں، اسے بھی چھوڑیں، شیخ رشید بتا چکے، جیو والو! وزیراعظم تم سے ناراض، اسے بھی چھوڑیں، سنا جا رہا تھا کہ میر شکیل کے خلاف گھیرا تنگ ہو رہا، یہ سب چھوڑیں، بات کر لیتے ہیں 180کنال 18مرلے زمین کیس کی، یہ زمین تھی محمد علی نامی شخص کی، وہ فوت ہوا تو بیٹوں ہدایت علی، حکمت علی کو ملی، 4جون 1986کو ہدایت علی، حکمت علی سے میر شکیل کی ڈیل ہوئی، پاور آف اٹارنی میر شکیل کو ملا، یہ زمین ایل ڈی اے ہاؤسنگ سوسائٹی میں آئی، میر شکیل، ایل ڈی اے میں طے ہوا یہ زمین ایل ڈی اے لے گا اور ایل ڈی اے اس زمین کے بدلے 30فیصد ڈویلپ لینڈ میر شکیل کو دے گا، 7جون 1986، ایل ڈی اے نے کام شروع کیا، 3جولائی 1986کو ڈی جی ایل ڈی اے ہمایوں فیض رسول نے سمری وزیراعلیٰ نواز شریف (جو ایل ڈی اے کے چیئرمین بھی تھے) کو بھجوائی۔

 11جولائی 1986کو سمری منظور ہوئی، میر شکیل کو ہاؤسنگ ایکٹ 1973کی ایگزمیشن پالیسی کے تحت جوہر ٹاؤن فیز ٹو میں 54 کنال ڈویلپ زمین مل گئی، اب اسے چھوڑیں، اس زمین کے حوالے سے 28دسمبر 1993کو ممبر پنجاب اسمبلی رانا آفتاب پنجاب اسمبلی میں نکتہ اٹھا چکے کہ بی آر بی کینال روڈ پر نواز شریف نے زمین غیرقانونی الاٹ کی، ایل ڈی جواب دے چکا، یہ زمین قواعد و ضوابط کے عین مطابق دی گئی۔

 اسے بھی چھوڑیں کہ نواز شریف نے رولز ریلیکس کرکے زمین دی یا نہیں، انہیں رولز ریلیکس کرنے کا اختیار تھا یا نہیں، اسے بھی چھوڑیں کہ میر شکیل الرحمٰن کی 3جگہوں پر زمین کے بدلے ایک جگہ زمین الاٹ ہو سکتی تھی یا نہیں، ایک ایک کنال کے کتنے پلاٹ دیے جا سکتے اور 5یا دس مرلے کے کتنے پلاٹ، یہ سب چھوڑیں، بات یہ، 34سال پرانے کیس میں میر شکیل کو 28فروری 2020کو نوٹس جاری ہوا۔

 3مارچ کو نوٹس ملا، 5مارچ کو وہ پیش ہوئے، 12مارچ کو دوبارہ بلایا اور گرفتار کر لیا، اب نیب کا اپنا قانون، طریقہ کار، شکایت آئے، تصدیق ہو، انکوائری کا حکم نیب ایگزیکٹو بورڈ دے، ملزم کو نوٹس جائے، سمن، تفتیش، سوالنامہ، جوابات کی تصدیق اور ریفرنس یا گرفتاری کے بعد ریفرنس، مگر اس کیس میں شکایت ملی، میر شکیل کو بلایا اور شکایت کی تصدیق ہونے سے بھی پہلے گرفتار کر لیا، نیب نے اپنا قانون، رہنما اصول توڑ ڈالے اور 20سالہ تاریخ میں پہلی بار شکایت کے تصدیقی مرحلے پر کسی کو گرفتار کر لیا۔

یہاں یہ بات بھی بہت دلچسپ، میر شکیل پبلک آفس ہولڈر نہ اُنہوں نے خود کوئی غلط کام کیا، انہوں نے ایک پرائیویٹ پارٹی سے زمین لی، ایل ڈی اے کو دی اور زمین کے بدلے زمین لی، مسئلہ صرف الاٹمنٹ کا، اب اگر یہ الاٹمنٹ غیرقانونی تو بھی یہ غلط کام کیا وزیراعلیٰ اور ایل ڈی اے چیئرمین نواز شریف نے، ایل ڈی اے حکام نے، میر شکیل الرحمٰن تو بینی فشری مگر نیب نے میر شکیل کو گرفتار کرنے کے دو دن بعد ایل ڈی اے اور نواز شریف کو پہلی بار نوٹسز جاری کیے۔

 حالانکہ ایل این جی ٹرمینل کیس میں شاہد خاقان عباسی ہو یا 56 کمپنی اسکینڈل میں شہباز شریف یا کسی سرکاری ڈیل میں کوئی بیورو کریٹ، نیب پہلے سرکاری محکمے کی طرف جائے، تحقیق، تفتیش کرے، قصور نکلنے پر پبلک آفس ہولڈر کو پکڑے، پھر ان پرائیویٹ پارٹیوں کی طرف جائے جنہوں نے فائدہ لیا ہو جب کہ یہاں نواز شریف، ایل ڈی اے کو پوچھا تک نہیں، میر شکیل کو پکڑ لیا اور وہ بھی ایک غیر قانونی الاٹمنٹ پر اور وہ بھی مبینہ غیر قانونی الاٹمنٹ کی شکایت کی تصدیق سے بھی پہلے، بات یہیں نہیں رکی۔

 اِدھر میر شکیل گرفتار ہوئے اور اس سے اگلے دن ملک بھر میں جیو ٹی وی بندش شروع، اب جیو ٹی وی کا اس کیس سے کیا تعلق، جیو ٹی وی سے جڑے ہزاروں ملازمین، صحافیوں کا کیا قصور، پچھلے دو دن سے میں یہی سوچ رہا ہوں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔