04 اپریل ، 2020
آزادیٔ صحافت اور اظہارِ رائے کی آزادی کا تعلق کسی اخبار یا چینل سے نہیں، عوام سے ہوتا ہے، ہم تو صرف ایک ذریعہ ہوتے ہیں۔ اگر ملک میں آزاد میڈیا نہ ہو یا اس کی آواز دبائی جارہی ہو تو جمہوریت نام نہاد ہی رہ جاتی ہے۔
ذرا غور کریں پورا ملک کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈائون ہے مگر صبح سویرے آپ کے آنگن میں آکر اخبار پھینک کر ضرور جاتا ہے۔ رات کو مشینوں میں کام کرنے والے اسے تیار کرتے ہیں پھر ترتیب دیتے ہیں اور دن بھر رپورٹرز اور کیمرہ مین سڑکوں پر چکر لگاتے ہیں۔ خبر کی تلاش میں یہ سلسلہ برسوں سے چل رہا ہے کہ جب بھی کوئی تباہی آتی ہے تو لوگ وہاں سے بھاگ رہے ہوتے ہیں مگر ایک طبقہ ایسا ہے جو اس جانب جا رہا ہوتا ہے اور وہ ہے صحافی!
مجھے اس شعبے سے وابستہ ہوئے تقریباً 39سال ہو گئے ہیں مگر یہ بات میں مکمل تحقیق کے بعد کہہ رہا ہوں کہ میں نے آج تک میڈیا کے اس سے بدترین حالات نہیں دیکھے جس کے نتیجے میں صرف پچھلے ڈیڑھ سال میں 3ہزار سے زائد لوگ بیروزگار ہو چکے ہیں اور گزرتے دنوں کے ساتھ اس میں اضافے کا خدشہ ہے۔ جو اب بھی برسرروزگار ہیں، انہیں مہینوں تنخواہیں نہیں ملتیں، اب تک کوئی 6صحافی اس معاشی دبائو کا شکار ہوکر دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر چکے ہیں۔
آخر میڈیا کو سزا کس چیز کی دی جارہی ہے؟ بدقسمتی سے جب بھی کوئی حکمران برسراقتدار آتا ہے، اس کا پہلا ہدف یہی آزاد میڈیا ہوتا ہے۔
شاید یہی وجہ تھی جس کی بنیاد پر 2؍اگست 1950میں تحریک آزادیٔ صحافت کا آغاز ملک گیر سطح پر کیا گیا اور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کا قیام عمل میں آیا کیونکہ اس سے ایک سال پہلے ہی یعنی 1949میں اخبار ’’سندھ آبزرور‘‘ میں ہڑتال ہو چکی تھی۔ اس تحریک کے تین بنیادی اصول رہے ہیں۔ 1۔ملک میں آزادیٔ صحافت اور اظہارِ رائے کی آزادی کی جدوجہد کرنا۔ 2۔اخباری صنعت (جس میں اب چینلز بھی شامل ہیں) میں کام کرنے والے کارکنوں کے معاشی تحفظ کیلئے جدوجہد کرنا ، 3۔صحافیوں کی پیشہ ورانہ تربیت کا اہتمام کرنا۔
اس تحریک کو 70سال مکمل ہو گئے مگر آج بھی یہ جاری ہے۔ گو کہ تقسیم نے اس کو شدید نقصان پہنچایا۔ آج جتنی نثار عثمانی مرحوم، منہاج برنا مرحوم اور عبدالقدوس شیخ مرحوم کی کمی محسوس کی جارہی ہے، اتنی پہلے کبھی نہ تھی۔ اس تحریک کے دوران کئی ایسے مواقع آئے جب آزادی صحافت کے حصول، لوگوں کے اطلاعات تک رسائی کے حق اور صحافیوں کے قتل اور ملک میں رائج کالے قوانین کے خاتمے کیلئے پی ایف یو جے نے مالکان اور مدیران کی تنظیموں CPNE, APNSاور PBAکے ساتھ مل کر جدوجہد کی ہے۔
پچھلے دنوں مجھے قومی اسمبلی کی 1973کی وہ کارروائی پڑھنے کا موقع ملا جو اخباری کارکنوں کیلئے قائم News Papers Employee (Candition of Service Act) 1973 پر ہوئی۔ اگر اس پر صحیح معنوں میں عمل ہوتا تو آج یونین نہ صرف مضبوط ہوتیں بلکہ اداروں پر ریاستی حملوں کا مقابلہ زیادہ بہتر انداز میں کرتیں۔
’’جنگ‘‘ سے جنگ اور ’’جیو‘‘ کو جینے نہ دو، کی پالیسی ماضی کے حکمرانوں کی بھی رہی ہے۔ جب ’’جیو‘‘ نہیں تھا تو ’’جنگ‘‘ نشانے پر تھا۔ کیا ہم 1998بھول گئے ہیں جب نواز شریف صاحب کی حکومت تھی تو ایک بار میاں صاحب نے صحافیوں کو مشورہ دیا تھا کہ سیاست پر رپورٹنگ کے بجائے معیشت پر بات ہونی چاہئے۔ اس پر نثار عثمانی صاحب نے ایک مفصل کالم بھی لکھا تھا کہ سیاست کرنا آپ کا کام تھا ہی نہیں، ہمیں مشورہ نہ دیں۔ پھر محترم سیف الرحمٰن کے ذریعے ’’جنگ‘‘ اور ’’نیوز‘‘ پر حملہ آور ہونے کی کوشش ہوئی، ایک اتحاد کے ذریعے اس سازش کو ناکام بنایا۔ کاش! اس وقت یونین کو مزید مضبوط بنانے کے اقدامات کیے جاتے اور معاشی تحفظ دیا جاتا تو آج کسی کو یہ جرات نہ ہوتی۔
1996میں کراچی کے 6اخبار بند کردیے گئے جن میں روزنامہ ’’عوام‘‘ اور ’’ڈیلی نیوز‘‘ کا تعلق جنگ گروپ سے تھا۔ 2007میں جنرل (ر) پرویز مشرف نے ملک میں ایمرجنسی لگائی تو نہ صرف اینکرز پر پابندی لگی بلکہ ’’جیو‘‘ کے اسپورٹس چینل ’’جیو سوپر‘‘ پر بھی پابندی اس وجہ سے لگائی کہ وہ پاک بھارت سیریز نہ دکھا سکے جس سے کروڑوں کا نقصان ہوا۔
یہ سب حکومتیں کرکے رخصت ہوئے مگر ’’جنگ‘‘ اپنی جگہ کھڑا ہے اور ’’جیو‘‘ بھی! پاکستان کے اس سب سے بڑے میڈیا گروپ کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن کی ’’نیب‘‘ کے ہاتھوں 34سال پرانے مقدمے میں گرفتاری اسی سلسلے کی کڑی ہے جو اس ادارے کو کنٹرول کرنے کیلئے ماضی میں بھی ہوتی رہی ہے۔ یہ ’’جنگ‘‘ بھی ہم ہی جیتیں گے کیونکہ حکمرانوں کی نیت اس ملک میں آزاد میڈیا کی آواز کو دبانا ہے اسی لئے اس گرفتاری سے پہلے اس کے اشتہارات روکے گئے، واجبات روکے گئے۔
پاکستان کے دوسرے بڑے میڈیا گروپ ’’ڈان‘‘ کو بھی شکار بنایا گیا۔ حد تو یہ ہے کہ سوشل میڈیا ریگولیشن کے نام پر نام نہاد رولز بنائے گئے۔ دنیا سے ردعمل آیا تو کچھ ہوش آیا۔ پریس کونسل اور پیمرا کو ضم کرنے کی سازش کرکے ایک ادارہ بنا کر کنٹرول کرنے کی کوشش ہوئی، ایف آئی اے کے ذریعے کئی صحافیوں اور سوشل میڈیا پر متحرک تنقیدی آوازوں کو نشانہ بنایا گیا۔
میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری اسی تسلسل کا حصہ ہے۔ پیغام یہ دینا مقصود تھا کہ اگر ہم ’’جیو‘‘ اور ’’جنگ‘‘ کے مالک کے ساتھ یہ کر سکتے ہیں تو دوسرے ’’میڈیا ہائوسز‘‘ حکمرانوں پر تنقید سے باز رہیں۔
خان صاحب! اقتدار آنی جانی چیز ہے۔ مشرف صاحب آج اپنے 2007کے فیصلے پر نادم ہیں۔ غور کیجئے آپ کے ان 20ماہ میں کتنے صحافی بیروزگار ہوئے، اخبارات کے ایڈیشن بند ہوئے، کتنی تنخواہ میں کٹوتی یا تاخیر ہوئی، کتنوں پر مقدمات بنے اور گرفتار ہوئے۔ خان صاحب! صحافت ختم ہوگئی تو جمہوریت یا سیاست کہاں رہے گی۔ اگر آمریت لانا چاہتے ہیں تو سو بسم ﷲ!
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔