04 اپریل ، 2020
مبارک ہو! اب کورونا کی خیر نہیں۔ بالآخر ہمارے محبوب وزیراعظم حرکت میں آگئے اور کورونا وائرس کی ایسی تیسی کرنے کیلئے انہوں نے ٹائیگر فورس کی تشکیل کا اعلان کر دیا۔ یوں سارے ٹائیگرز اب حرکت میں آ جائیں گے۔ آج سے سوشل میڈیا پر کورونا وائرس کے خلاف ایسی جنگ برپا کر دیں گے کہ وہ منہ چھپاتا پھرے گا۔
ماشاء ﷲ عمران خان کے پاس سوشل میڈیا کے ٹائیگرز کی درجنوں ٹیمیں ہیں۔ عارف علوی کے بیٹے کی اپنی ٹائیگر ٹیم جو اب ایوانِ صدر سے چلائی جائے گی، اسد عمر کی اپنی ٹائیگر ٹیم، شاہ محمود قریشی کی اپنی ٹائیگر ٹیم، جہانگیر ترین کی اپنی ٹائیگر ٹیم، عثمان ڈار کی اپنی ٹائیگر ٹیم، ہر وزیر، مشیر اور ہر ایم این اے، ایم پی اے کی اپنی ٹائیگر ٹیم پہلے سے موجود ہے۔ اور تو اور عثمان بزدار اور بزدار پلس جیسے شریف لوگوں نے بھی اپنے اپنے سوشل میڈیا کے ٹائیگرز رکھے ہوئے ہیں۔
اب تو ساری وزارتِ اطلاعات سوشل میڈیا ٹائیگر ٹیم بن گئی ہے اور قیادت فردوس عاشق اعوان کو دی گئی ہے جن کی زبان سے کورونا وائرس تو کیا، اچھے بھلے زبان دراز بھی ﷲ کی پناہ مانگتے ہیں۔ عرصہ ہوا کہ پس چلمن حلقوں کی سوشل میڈیا ٹیمیں بھی ان کے کام آتی ہیں۔
پھر بنکاک سے لے کر لندن تک اور سنگاپور سے لے کر امریکہ تک میں سوشل میڈیا ٹائیگرز برسوں سے متحرک ہیں۔ اب تو گوگل میں کام کرنے والی ماہر خاتون کی خدمات بھی حاصل کر لی گئی ہیں۔ پورا وزیراعظم ہائوس میڈیا اور سوشل میڈیا کے ماہرین سے بھرا پڑا ہے۔ اب تو ریلیف فنڈ سے ٹائیگرز کو مزید مراعات اور سہولتیں بھی مل جائیں گی اور انہیں مزید ہتھیاروں سے بھی لیس کر دیا جائے گا۔
خان صاحب نے کورونا پر اٹیک کا آرڈر دے دیا ہے اور اب دیکھیں کہ کورونا کا کیا حشر کیا جاتا ہے۔ چنانچہ عنقریب سوشل میڈیا پر یہ ٹائیگر عوام کو باور کرا دیں گے کہ شہباز شریف لندن میں اس لیے بیٹھے ہوئے تھے کہ اپنے ساتھ کورونا وائرس لے آئیں اور اب وہ جیبوں میں بھر کر اپنے ساتھ کورونا وائرس لے آئے۔ وہ باور کرائیں گے کہ پاکستان میں کورونا کا نام و نشان نہ تھا لیکن یہ رئوف کلاسرا امریکہ سے کسی کتاب میں لپیٹ کر لے آئے۔
بہت جلد وہ یہ ثابت کرا دیں گے کہ کورونا وائرس تفتان کے زائرین کیلئے حکومت کی طرف سے غلط انتظام کی وجہ سے نہیں پھیلا بلکہ یہ جب گزشتہ سال نسیم زہرا اور عاصمہ شیرازی ایران گئی ہوئی تھیں تو وہ یہ وائرس اپنے ساتھ لائی تھیں اور اپنے صحن میں اس وقت کیلئے انہوں نے دفن کر لیا تھا کہ عمران خان کو بدنام کرنے کے لیے مناسب وقت پر باہر نکال لیں۔
چنانچہ اب وہ وائرس زمین سے نکال کر ان دونوں نے پھیلا دیا۔ اب یہ ٹائیگرز دنیا کو باور کرا دیں گے کہ عمران خان کے خوف سے کورونا وائرس پاکستان کی طرف آنے کی ہمت نہیں کر سکتا تھا لیکن مراد علی شاہ اور سعید غنی نے قبل از وقت کورونا کا اتنا شور مچایا کہ وہ پاکستان کی طرف متوجہ ہوا۔ اب وہ یہ ثابت کریں گے کہ یہ جو غلطی کی وہ تبلیغی جماعت والوں نے کی، کیونکہ وہ ہفتوں ہفتوں کیلئے گھروں سے نکل کر مساجد میں ٹھہرتے ہیں حالانکہ ’’ریاست مدینہ‘‘ کے قیام کے بعد تو ان کو گھروں میں بیٹھنا چاہئے تھا۔ اب میڈیا خبر دے گا کہ فلاں جگہ ڈاکٹروں کے پاس ضروری آلات نہیں ہیں تو جواب آئے گا کہ ہر طرح کی سہولتیں ہیں لیکن یہ لفافہ صحافی غلط خبریں دے رہے ہیں۔
اب خبر آئے گی کہ فلاں جگہ لوگوں کے پاس اشیائے ضروریہ کا فقدان ہے تو ٹائیگرز کسی اور جگہ میں لوگوں کی خوشحالی کا فوٹیج لگا کر باور کرائیں گے کہ وہاں تو لوگ مزے میں ہیں۔ علیٰ ہذا القیاس
بہرحال اب کورونا وائرس کی خیر نہیں۔ پی ٹی آئی کے ٹائیگرز اب سوشل میڈیا پر اس کے ایسے ایسے مِیم بنا دیں گے کہ وہ شرما کر پاکستان سے بھاگ جائے گا۔ آپ دیکھتے جائیں ان میمز میں کہیں وہ کورونا کو مولانا کی پگڑی پہنائیں گے، کہیں انہیں سراج الحق کی ٹوپی پہنائیں گے اور کہیں انہیں محمود خان اچکزئی کی چادر میں لپیٹیں گے۔
یہ ٹائیگرز کورونا کے خاندان تک کو اتنا بدنام کر دیں گے کہ وہ منہ چھپاتا پھرے گا۔ یہ کورونا ہمارے پی ٹی آئی کی ٹائیگرز کی صلاحیت سے واقف نہیں۔ اب دیکھیں وہ کورونا وائرس کو دنیا کا کرپٹ ترین وائرس ثابت کر دیں گے۔ اسے انڈیا کا ایجنٹ بھی بنا دیں گے اور پھر بھی کام نہ ہوا تو اس کی ایسی ذاتی کردار کشی کریں گے کہ وہ بھاگنے پر مجبور ہو جائے گا تاہم پھر بھی باز نہ آئے تو پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر اپنے پختون ٹائیگرز سے کورونا وائرس کو ایسی گالیاں دلوا دیں گے کہ اس کے پاس بھاگنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوگا۔
ویسے جاتے جاتے یاد آگیا کہ مجھے تو مراد علی شاہ اور سعید غنی وغیرہ میدان میں متحرک نظر آرہے ہیں۔ جماعت اسلامی کے ورکرز کراچی سے لے کر دیر کے پہاڑوں تک میدان میں ہیں۔ جے یو آئی کے رضاکار ہر جگہ مصروف عمل ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن خلیل کی تنظیم فلاحی کاموں میں سرگرم ہے۔ شاہد آفریدی، شعیب اختر اور احمد شہزاد جیسے کھلاڑی انفرادی طور پر متحرک نظر آرہے ہیں۔ ہزاروں لوگ خاموشی کے ساتھ اس وبا کے متاثرین کی مدد کر رہے ہیں لیکن مجھے عمران خان کے ارب پتی ٹائیگرز کہیں نظر آرہے ہیں اور نہ زبان دراز انقلابی۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔