بلاگ
Time 11 اپریل ، 2020

انسان ہونا کافی ہے۔۔

کل ایک صاحب کا فون آیا، لاک ڈاؤن کی وجہ سے کافی پریشان تھے، آپ سوچ رہے ہوں گے معاملہ سنجیدہ ہے، پر کہانی کچھ مختلف ہے۔ بڑے صاحب یہ فرما رہے تھے کہ ان کے علاقے میں فاسٹ فوڈ دستیاب نہیں، بریانی اور نہاری بھی نہیں مل رہی، جینا مشکل ہوگیا ہے۔ گھر کے کھانوں سے پیٹ تو بھر رہا ہے لیکن زبان کو ذائقہ کی طلب نے بے حال کر رکھا ہے۔ 

ان صاحب کی سنجیدگی کا یہ عالم تھا کہ ان کی غمگین آواز نے مجھے بھی افسوس کے اظہار پر مجبور کردیا۔ یہ تو فون رکھ کر مجھے ان باتوں میں مزاح کا احساس ہوا ورنہ کچھ وقت کے لئے تو میں بھی سیریس ہوگیا تھا۔

لوگوں کے بھی عجیب طرح کے مسائل ہیں، محلے کا ایک لڑکا رات کو مارا مارا پھر رہا تھا۔ دریافت کیا تو یہ مسئلہ بھی قابلِ توجہ تھا۔ سگریٹ پان چھالیہ کی غیر دستیابی پر بہت برہم تھا۔ کہنے لگا دفتر سے واپس آؤ تو ساری دکانیں بند ہوتی ہیں۔ اب کیا انسان پان بھی نہ چبائے؟ ویسے ہی کورونا وائرس کے خوف نے دل کمزور کردیا ہے۔ اب کیا یہ حکمران دماغ بھی کمزور کرائیں گے؟ بات تو ٹھیک کہہ رہا تھا۔ پان نہیں چبائے گا تو لوگوں کا دماغ چبائے گا۔

ہم میں سے اکثر لوگ سمجھتے ہیں بچوں کے مسائل نہیں ہوتے یا انہیں پریشانی نہیں ہوتی۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ایسے بچے بھی ہیں جنہیں اپنا اسکول اور دوست بہت یاد آرہے ہیں۔ گھر پر بیٹھے بیٹھے نواب زادے بوریت کا شکار ہوگئے ہیں۔ اسکول کے نام تک سے بھاگنے والے بچے بھی اسکول کو یاد کررہیں ہے۔ جبکہ دوسری طرف والدین بھی دھکا مار کر بچوں کو اسکول بھیجنے کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔

 ایک خاتون فرما رہی تھیں بچے اسکول میں ہوتے ہیں تو اپنے لئے کچھ وقت مل جاتا ہے ورنہ تو سارا دن ہی بچوں کی دیکھ بھال میں نکل جاتا ہے۔ بھئی مائیں بھی تو انسان ہوتی ہیں نا۔ ایسا تھوڑی ہے کہ بچے پیدا ہوگئے تو ساری دوستی یاری ملنساری ختم ہوگئی۔ تعلقات برقرار رکھنا اور فریش رہنا بھی زندگی کے لئے بہت ضروری ہے۔ خاتون کی یہ بات آپ کو کیسی لگی؟ خاتون پر نہیں بات پر غور کریے گا۔

ایسے ہی ایک بزرگ کی پریشانی بھی سنے کو ملی۔ مسجد کی یاد میں تڑپ رہے تھے۔ حکومت کو گالیاں نکال رہے تھے۔ کہنے لگے اب کیا اللہ اور بندے کی بیچ یہ دو نمبر رہنما آئیں گے؟ خدا اور بندے کے بیچ کسی کو آنے کی اجازت نہیں۔ مسجدیں کھولو تاکہ خدا ہم سے راضی ہو۔ آپ کہیں یہ تو نہیں سوچ رہے کہ مسجدیں تو کب سے کھلی ہیں۔ خدا نے راضی ہونا ہوتا تو یہ عذاب ہی کیوں آتا؟ یا اس وباء کا تعلق مذہب سے نہیں بلکہ اس میں سائنسی و دنیاوی عناصر شامل ہیں؟

تمام انسان کبھی کسی ایک بات پر متفق نہیں ہوسکتے۔ اختلاف کا پہلو ہمیشہ قائم رہتا ہے۔ اور رہنا بھی چاہئے۔ اختلاف زندہ ہونے کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ اور اس کا تعلق کسی مذہب رنگ نسل سے نہیں۔ یہ قدرتی عنصر بلاتفریق رنگ و نسل ہر انسان میں پایا جاتا ہے۔ کسی میں ذیادہ تو کسی میں کم۔ لیکن ہوتا ضرور ہے۔ کہیں اختلاف کی شدت ذیادہ ہوگی تو کہیں ہلکی پھلکی مخالفت۔ بس خیال رہے کہ اختلاف کی شدت تنازعہ کا باعث بن جاتی ہے۔ اور اس سے کسی کا فائدہ نہیں ہوتا۔

کورونا وائرس بھی انسانوں کا شکار رنگ و نسل یا عقائد دیکھ کر نہیں کررہا۔ یہ انسانیت کو نقصان پہنچانے میں متحد نظر آتا ہے۔ اور یقیناً اس عالمگیر وبا سے نمٹنے کا بہترین طریقہ بھی ہمارا اتحاد ہی ہے۔ 

یہ بات درست ہے کہ ہماری ضروریات الگ الگ ہیں، ہماری خواہشات الگ ہیں، ہماری سوچ مختلف ہے لیکن ہم سب کا مقصد ایک ہے اور وہ ہے کورونا کو ہرانا۔ اس مشن میں جو کوئی بھی جیسے بھی اپنا کردار ادا کررہا ہے اس کی حوصلہ افزائی کریں۔ کسی کو حوصلہ دینے کے لئے آپ کا امیر ہونا ضروری نہیں۔ یہ چیز مالی امداد کی طرح حیثیت کی محتاج نہیں۔ اس کے لئے بس انسان ہونا کافی ہے!


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔