بلاگ
Time 05 اپریل ، 2020

وبا کے بعد کی زندگی کیسی ہوگی؟

فوٹو: فائل

آج سے ایک ماہ، تین ماہ، چھ ماہ یا ایک سال بعد جب یہ وبا ختم ہو گی تو اِس زمین پر بسنے والے انسان اپنی نئی زندگی کیسے شروع کریں گے؟ یہ وہ ملین ڈالر سوال ہے جو ہمارے مستقبل کا تعین کرے گا۔ 

اب سے تقریباً تین ارب نوّے کروڑ سال پہلے ایک چھوٹے سے خلیے سے شروع ہونے والی زندگی مسلسل ارتقائی عمل میں ہے اور یہ عمل تاقیامت جاری رہے گا, کب، کیسے، کہاں، کون سا خلیہ کیا شکل اختیار کر لے، ڈی این اے میں کون سا جین کب تغیر پذیر ہو جائے، کب کسی جرثومے کی جُون بدل جائے اور اِس کے نتیجے میں زندگی یکایک کیا روپ دھار لے اور ہمیں کہاں پٹخ کر دے مارے، سوائے رب کے کوئی نہیں جانتا۔ 

ہماری اوقات کا اندازہ اِس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ زمین نامی جس سیارے میں ہم رہتے ہیں، اُس کا پتا اگر کائنات میں کسی دوسری مخلوق کو سمجھانا پڑ جائے تو کچھ یوں بتائیں گے کہ جناب والا، اگر آپ اپنی کہکشاں سے ملکی وے کی طرف آئیں تو Sagittarius Armمیں کسی سے بھی ہمارے نظام شمسی کے بارے میں پوچھ لیں، وہاں سے زیادہ دور نہیں، یہی کوئی ایک یا دو کروڑ سال کے فاصلے پر ہے، نظام شمسی میں مریخ کی بغل میں جو چھوٹا سا سیارہ ہے وہی غریب خانہ ہے، چھ سات ارب کی آبادی ہے، آج کل گھر میں ذرا پریشانی چل رہی ہے، بیماری نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں، کوشش کر رہے ہیں کہ جان چھُوٹ جائے! اور اگر کائنات میں ایسی کوئی مخلوق ہوئی تو عین ممکن ہے کہ ہمیں یہ جواب دے کہ برخوردار، چھوٹا سا تمہارا گھر تھا، اتفاق سے اُس میں آکسیجن میسر تھی، پانی بھی وافر تھا، اچھی خاصی تمہاری گزر بسر ہو رہی تھی مگر تم نے تو وہ اُدھم مچایا کہ الامان الحفیظ، اپنے ساتھ ساتھ دوسرے جانداروں کا بھی جینا دوبھر کر دیا، اب بھگتو!

مجھے یہ تو علم نہیں کہ اِس کائنات میں کوئی دوسری مخلوق بستی ہے یا نہیں لیکن انسان نامی مخلوق جو زمین پر آباد ہے اُس نے دیگر حیوانات کے مقابلے میں ناقابل بیان ترقی کی ہے اور ترقی کے اِس سفر میں انسان نے باقی جانداروں کو کچھ زیادہ عزت نہیں دی، کسی کو ہم پکا کر کھا جاتے ہیں تو کسی کو ابال کر سُوپ پی لیتے ہیں، کسی کی کھال ادھیڑ کر جوتی بنا لیتے ہیں تو کسی درخت کو کاٹ کر ڈرائنگ روم میں میز کی شکل دے دیتے ہیں۔ 

بہت سے لوگ آج یہ تھیوری پیش کر رہے ہیں کہ انسان نے چونکہ اِس زمین پر قدرت کا توازن بگاڑ دیا تھا سو ’نیچر‘ اپنے قانون پر عمل کرتے ہوئے اِس توازن کو واپس لانا چاہتی ہے۔ ممکن ہے ایسا ہی ہو یا ممکن ہے کوئی اور وجہ ہو۔ 

فی الحال مگر سوال یہ ہے کہ اِس وبا کے خاتمے کے بعد کا انسان کیسا ہوگا، وہ کس قسم کی زندگی گزارے گا اور یہ دنیا کیسی ہو گی؟ اگر یہ وبا آ ج سے دو لاکھ سال پہلے آئی ہوتی تو شاید اُس وقت کے انسان کی زندگی میں کوئی خاطر خواہ فرق نہ پڑتا، وہ ویسے ہی جنگلوں میں رہتا، اسی طرح پیڑ سے پھل توڑ کر کھاتا، حسبِ توفیق جانوروں کا شکار کرتا اور شام کو اپنی مادہ سے بالوں کی جوئیں نکلواتا (یا ’vice versa‘)۔ 

آج کا انسان ایسے نہیں جی سکتا، کچھ دیر کے لیے ہم ماسک پہن لیں گے، گھروں میں بھی بیٹھ جائیں گے، ایک دوسرے سے ملنے میں بھی احتیاط برتیں گے مگر بالآخر تنگ پڑ جائیں گے، ہمیشہ کے لیے یہ طرزِ زندگی شاید ہمیں قبول نہ ہو۔ 

آخر ہم نے ومبلڈن دیکھنا ہے، فٹ بال کھیلنا ہے، اولمپک منعقد کروانا ہیں، دنیا کی رنگینیاں سمیٹنی ہیں، ملکوں ملکوں گھومنا ہے، اپنے رب کے گھر بھی حاضری دینی ہے، زیارتیں کرنی ہیں۔

سب سے پہلی تبدیلی جس کے آثار ابھی سے نظر آنا شروع ہو گئے ہیں وہ ٹیکنالوجی کا استعمال ہے جو پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ جائے گا۔ دو دن پہلے گوگل نے دنیا بھر کے ممالک کا ڈیٹا ویب سائٹ پر ڈالا جس سے پتا چلایا جا سکتا ہے کہ لاک ڈاؤن کے بعد لوگوں کی نقل و حرکت کس حد تک محدود ہوئی ہے، ظاہر ہے کہ گوگل کے پاس ان معلومات کی رسائی ہے جو صارف کی نقل و حرکت سے متعلق ہیں، اِس سے اگلے مرحلے میں یہ ہوگا کہ حکومتیں اپنے شہریوں کی صحت کی حفاظت کی خاطر مزید ذاتی معلومات تک رسائی حاصل کریں گی تاکہ مستقبل میں وبا کو پھوٹنے سے روکا جا سکے۔ 

ایک آئیڈیا اِس خاکسار کے ذہن میں بھی آیا ہے کہ دنیا کی تمام حکومتیں عالمی ادارۂ صحت کے تعاون سے ایک ایسا مربوط ڈیٹا بیس تیار کریں جس میں وائرس سے متاثرہ اور صحت یاب ہونے والے لوگوں کا ڈیٹا ہو، انہیں ایک مخصوص نمبر دے دیا جائے جو اُن کی شناخت ہو، ویکسین ایجاد ہونے کے بعد باقی لوگوں کو بھی اِس ڈیٹا بیس میں شامل کر لیا جائے جو اِس بیماری سے محفوظ تصور کیے جائیں، پھر اِس ڈیٹا بیس کو موبائل ایپ کے ساتھ منسلک کر دیا جائے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ دنیا میں وائرس سے کتنی آبادی محفوظ ہے اور کتنی آبادی کو ابھی ویکسین کی ضرورت ہے۔ 

اِس ڈیٹا بیس سے عام لوگوں کو بھی پتا چل جائے گا کہ کسی اجتماع میں جانا محفوظ ہے یا نہیں، سفر کے دوران اذیت ناک اسکریننگ کی بجائے پاسپورٹ کے ساتھ صحت کا یہ نمبر بھی امیگریشن کاؤنٹر پر چیک کر لیا جائے کہ کہیں مسافر میں وائرس تو نہیں، بالکل ایسے جیسے کمپیوٹر میں اینٹی وائرس سافٹ ویئر ڈال کر کھنگالا جاتا ہے۔

انسان کی زندگی کس قدر بےمعنی ہے یہ اِس وبا نے ایک مرتبہ پھر ہمیں سمجھا دیا ہے۔ جب سب کچھ دوبارہ سے واپس آئے گا تو زندگی کے متعلق ہمارے رویے تبدیل ہو چکے ہوں گے، ہم ایک ایسی دنیا میں واپس آئیں گے جو بالکل نئی ہو گی جس میں یہ حقیقت تسلیم کرنا ہوگی کہ ’محفوظ مستقبل‘ نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی، آنے والا ہر لمحہ اگر آگہی کا سبب بنتا ہے تو ساتھ ہی ایک نامعلوم بلیک ہول کا در بھی کھول دیتا ہے۔ نامعلوم سے معلوم تک کا یہ سفر جاری رہے گا، انسان کی پیاس نہیں بجھے گی۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔