Time 14 اپریل ، 2020
بلاگ

’’پر اجے قیامت نئیں آئی‘‘

فوٹو: فائل

آج پھر وہی ماتم، سینہ کوبی، گریہ، احتجاج، غصہ، بےبسی لیکن کوئی کرے کیا کیونکہ جب تک حالات نہیں بدلتے، موضوعات کیسے تبدیل ہو سکتے ہیں؟ ابھی گندم چینی کا سائیکلون تھما نہیں کہ سالانہ 100ارب کے ڈاکے کا طوفان آگیا۔ 

پاور سیکٹر میں بجلی کے پلانٹس 15فیصد کے بجائے 50تا 70فیصد تک ’’منافع‘‘لیتے رہے۔ کول پلانٹس کی لاگت 30ارب ظاہر کی گئی، فیول کھپت میں بھی کھل کھیلا گیا۔ ہر پلانٹ کی قیمت 2سے 15ارب اضافی ظاہر کرکے بھاری ٹیرف لیا گیا۔ 

1994کے بعد آئی پی پیز کے مالکان نے 350ارب روپے غیرمنصفانہ طور پر وصول کئے۔ تحقیقاتی رپورٹ بتاتی ہے کہ نواز، زرداری ادوار میں پلانٹس کے ساتھ کئے جانے والے معاہدے غیرمنصفانہ تھے اور مالکان نے 1994سے لیکر اب تک 350ارب روپے اضافی وصول کئے۔ 

جگا اور جگا ٹیکس تو یونہی بدنام ہیں۔ 278صفحات پر مشتمل 9رکنی کمیٹی کی تیار کردہ یہ رپورٹ قیامت ہے لیکن منو بھائی ٹھیک کہہ گئے ....’’پر اجے قیامت نئیں آئی ‘‘اور میں سوچ رہا ہوں کہ ’’راشن‘‘...دو وقت کی روٹی کی تلاش میں بھٹکتے غیور، باشعور پاکستانیوں کی بھاری اکثریت کو تو علم ہی نہیں کہ ایک ارب میں کتنے کروڑ اور ہر کروڑ میں کتنے لاکھ ہوتے ہیں اور اس رقم سے کتنے سمارٹ اسپتال، سکول قائم ہو سکتے تھے، صاف پانی کے کتنے منصوبے مکمل ہو سکتے تھے۔

سچی بات ہے کہ اپناپیارا اسلامی جمہوریہ دیکھ کر ہی اس قول کو سمجھ آئی کہ اس دنیا میں ہر ضرورت مند کی ہر ضرورت پورا ہونے کا سامان موجود ہے لیکن یہ پوری دنیا صرف ایک لالچی کا پیٹ بھرنے کیلئے بھی ناکافی ہے اور ہمارے پاس تو یہ ’’کورونے‘‘ اور ’’کینسر‘‘ اتنی تعداد میں ہیں کہ ان کی گنتی ہی ممکن نہیں۔

’’روشن پاکستان‘‘ کے خواب دیکھنے والے نہیں جانتے تھے کہ 72سال بعد یہ ’’راشن پاکستان‘‘ بن چکا ہو گا اور ایسا کرنے والوں کا کوئی بال بھی بیکا نہ کر سکے گا کیونکہ ان کے سروں پر بال ہی نہیں۔ 

المیہ یہ نہیں کہ حادثہ ہو گیا، اصل ٹریجڈی تو یہ ہے کہ پے در پے حادثوں کے باوجود ان کا نوٹس لینے والا کوئی نہیں، پچھلے وارداتیوں کا کسی نے کیا بگاڑ لیا جو ان اربوں کھربوں کا کوئی حساب ہو گا۔ 

سالانہ 100ارب کے ڈاکے کی انکوائری رپورٹ اس وزیراعظم کو پیش کر دی گئی جو کبھی قرضوں کی معافی اور کبھی قرضوں میں ریلیف دینے کی بات کرنے پر مجبور ہے تو یہ ’’مجبوری‘‘ کہاں سے آئی ہے؟اب دو ہی صورتیں ہیں، دو ہی رستے ہیں، اول یہ کہ ملک کو اس حال تک پہنچانے والوں کو برق رفتاری سے منطقی انجام تک پہنچایا جائے اور اگر یہ ساری رپورٹیں رطب و یابس اور جھوٹ کے پلندے ہیں تو انہیں تیار کرنے والوں کو نشانِ عبرت بنایا جائے۔

کچھ تو کرو .........لاشیں بھی موجود، آلاتِ قتل بھی برآمد ہو گئے، قاتل بھی سامنے لیکن نتیجہ؟ اور کچھ نہیں کر سکتے تو لاشیں ہی غائب کر دو لیکن اگر کچھ بھی نہیں ہونا، کسی شے نے اپنے منطقی انجام تک نہیں پہنچنا تو آپس میں بیٹھ کر سرجوڑو اور صرف اتنا ہی سوچ لو کہ ایسے کب تک چل سکتا ہے؟

ایک رپورٹ ایک سال میں 100ارب روپے کے ڈاکے کی ’’نوید مسرت‘‘ سناتی ہے تو سپریم کورٹ میں جمع ہونے والی اک رپورٹ یہ بھی بتاتی ہے کہ پنجاب میں 130جبکہ خیبر پختونخوا کے اسپتالوں میں صرف 55وینٹی لیٹرز ہیں۔

ایک طرف ’’جمہوریت کا حسن‘‘ ہے تو دوسری طرف ’’جمہوریت کا بھیانک انتقام‘‘ تو سمجھ نہیں آ رہی کہ کس کے گلے میں ہار ڈالوں؟ بےحس ترین معاشرہ میں بھی اگر دو چار لفنگے سرعام کسی کمزور لاوارث شخص کو بےرحمی سے مار رہے ہوں تو کسی نہ کسی راہگیر کی غیرت ضرور جاگ اٹھتی ہے اور وہ لفنگوں کےسامنے ڈٹ جاتا ہے کہ اس بیچارے نیم مردہ سے آدمی کو کیوں مارے جا رہے ہو؟ لیکن یہاں یہ پوچھنے والا بھی کوئی نہیں کہ بدبختو؟ 

اس مفلوک الحال ملک نے تمہارا کیا بگاڑا ہے جو مسلسل اس کا خون پیئے جا رہے ہو۔رپورٹوں پر رپورٹیں، کیسوں پر کیس، ٹی ٹیوں پر ٹی ٹیاں، اثاثوں پر اثاثے، فراڈوں پر فراڈ، ڈاکوں پر ڈاکے، ثبوتوں پر ثبوت، تضادات پر تضادات پر بھی ڈھٹائی کا یہ عالم کہ ’’اگر میرے اثاثے میری آمدنی سے کہیں زیادہ ہیں تو تمہیں اس سے کیا لینا دینا؟‘‘’’پر اجے قیامت نئیں آئی‘‘لیکن کب تک؟


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔