بلاگ

یاد ماضی کی جھلک

فوٹو: فائل

چلتے چلتے زندگی میں ایک ایسی منزل آتی ہے جب یوں محسوس ہوتا ہے جیسے زندگی کا حاصل محض چند یادیں، چند تجربات و مشاہدات ہیں۔ شبلی فراز وزیر اطلاعات بنے تو یادوں کا ایک باب کھل گیا حالانکہ میں نے انہیں دیکھا تک نہیں۔ شبلی فراز کو وزارتِ اطلاعات مبارک، دعا ہے کامیاب ہوں۔ اگرچہ کبھی کسی کو کامیاب ہوتے دیکھا نہیں۔

کامیابی کے اپنے اپنے معیار اور ترازو ہوتے ہیں۔ حکمرانوں کے معیار پہ پورا اُترنا ناممکن ہوتا ہے۔ وہ پڑھے لکھے، مہذب اور دھیمے لہجے میں گفتگو کرنے والے نوجوان ہیں اور یہی وہ خوبیاں ہیں جو حکمرانوں کو پسند نہیں ہوتیں۔ اس موضوع پر پھر کبھی۔

شبلی فراز وزیر اطلاعات بنے تو ایک بار پھر یوں لگا جیسے یہ دنیا چھوٹی سی ہے۔ میرے تجربات کا نچوڑ یہ ہے کہ اس چھوٹی سی زندگی اور چھوٹی سی دنیا میں چھوٹے خواب دیکھنے والوں کو بڑی اور بہت بڑی خوشیاں نصیب ہوتی ہیں جبکہ بڑے بڑے خواب دیکھنے والے ناخوش ہی رہتے ہیں اور ناخوش ہی دنیا سے چلے جاتے ہیں۔

ابھی کل کی بات ہے کہ مجھے سروس میں آئے بمشکل چھ برس گزرے تھے کہ مارچ 1974میں وزارتِ اطلاعات کے ایک محکمے کا سربراہ بنا کر اسلام آباد ٹرانسفر کر دیا گیا۔ مولانا کوثر نیازی وزیر اطلاعات تھے جو اپنی ادبی اور ’’صحافیانہ‘‘ بیک گرائونڈ کی وجہ سے نہایت کامیاب وزیر سمجھے جاتے تھے۔ مجھے ابھی وزارتِ اطلاعات میں آئے چند ماہ ہی گزرے تھے کہ مولانا کو اطلاعات سے فارغ کرکے وزیر مذہبی امور بنا دیا گیا۔

باخبر حضرات کا کہنا تھا کہ مولانا کو اخبارات اور ٹی وی پر بہت زیادہ پبلسٹی ملتی تھی جسے وزیراعظم ناپسند کرتے تھے۔ میں نے وزیر اطلاعات کے ساتھ اکثر اور بار بار یہ سانحہ ہوتے دیکھا ہے۔ بھٹو صاحب نہایت ذہین و فطین انسان تھے۔

انہوں نے وزارتِ اطلاعات کو اپنی سلطنت کا حصہ بنا لیا اور اپنے اسسٹنٹ یوسف بُچ کے ذریعے وزارت کی کمان سنبھال لی۔ یوسف بُچ غیرسیاسی شخصیت تھے اس لئے ان سے زیادہ پبلسٹی حاصل کرنے کا خطرہ نہیں تھا۔ وزارتِ اطلاعات کے ایک متحرک شعبے نیشنل سنٹرز میں ملک کے مقبول شاعر احمد فراز بھی تعینات تھے۔

جنرل ضیاء الحق کے دور میں اعجاز فاروقی نیشنل سنٹرز کے ڈی جی تھے جنہیں شاعری کا شوق بھی تھا۔ ایک روز ایک بےتکلف محفل میں فاروقی صاحب نے احمد فراز کو ’’احساسِ ماتحتی‘‘ دلانے کے لیے پوچھا ’’فراز صاحب! آپ کس گریڈ میں ہیں؟‘‘ احمد فراز کی حاضر جوابی مسلمہ تھی۔

جواب دیا کہ میں گریڈ اٹھارہ میں ہوں لیکن میں احمد فراز بھی ہوں‘‘ اس پر چھوٹا سا قہقہہ لگا اور فاروقی صاحب شرمندہ ہو کر رہ گئے۔

دہائیاں گزر گئیں لیکن ابھی کل کی بات لگتی ہے۔ احمد فراز مرحوم کے فرزند ارجمند اب ماشاء اللہ وزیر اطلاعات کا حلف اٹھا چکے ہیں اور یہ ایسی وزارت ہے جس میں ان کے والد گرامی طویل عرصے تک وزراء صاحبان کی ماتحتی کرتے رہے۔

یادش بخیر جن دنوں میں وزارتِ اطلاعات میں تعینات تھا، انہی دنوں سندھ کے معروف سیاستدان پیر علی محمد راشدی بھی وزارت میں بحیثیت اسپیشل اسسٹنٹ ٹو وزیراعظم پائے جاتے تھے۔ میرا تجربہ ہے کہ عام طور پر سندھی سیاستدان زیادہ سمجھ دار، گھاگ اور شاطر ہوتے ہیں۔

اتفاق ہے کہ میرا آفس راشدی صاحب کے پڑوس میں واقع تھا، اس لئے کبھی کبھار وہ گپ شپ کے لیے چائے پر بلا لیتے تھے۔ انہی دنوں انہوں نے ایک بنگالی حسینہ سے شادی رچائی تھی اس لئے سرکار کی نوکری کم اور بیگم کی نوکری زیادہ کرتے تھے۔

ایک روز گپ شپ میں ذرا کھلے تو طنزاً مسکرا کر کہا ’’تمہارا وزیراعظم (بھٹو) اپنے آپ کو بڑا ذہین اور شاطر سمجھتا ہے۔ اسے خطرہ تھا کہ میں سندھ میں رہ کر اس کے خلاف چالیں چلوں گا اور اس کے خلاف پروپیگنڈہ کروں گا چنانچہ اس نے مجھے اپنا معاونِ خصوصی بنا کر اسلام آباد بلا لیا ہے۔ ہم بھی کچی گولیاں نہیں کھیلتے۔ بھٹو اپنے آپ کو کیا سمجھتا ہے۔ میں اب سرکاری دورے پر جا کر اور سرکار کے خرچ پر سندھ میں وہ کام کر آتا ہوں جو میں نے وہاں رہ کر اپنے خرچ پر کرنا تھا‘‘۔

گھر کی نوکری کرنے کی وجہ سے شاید راشدی صاحب کشتے وغیرہ کثرت سے کھاتے تھے کیونکہ انہیں شدید سردی میں بھی سردی نہیں لگتی تھی۔

ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات۔ محترم شبلی فراز نے میڈیا اور حکومت کے درمیان پل بننے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ اُن کے حسن اخلاق کے سبب انہیں جتنا اچھا استقبال ملا ہے اتنا کم کم وزراکو نصیب ہوتا ہے۔

شبلی فراز کو ایک عرصہ کے بعد اندازہ ہوا ہوگا کہ اس استقبال نے کہاں کہاں حسد کی چنگاریاں سلگائی ہیں اور ان کا کون سا ساتھی رات بھر انگاروں پر لیٹا رہا ہے۔

اس کے بعد وزیراعظم کے کان بھرنے کا سلسلہ شروع ہوگا لیکن شبلی فراز کو اپنے بہت سے سابق رفقاء پر یہ برتری حاصل ہے کہ ان کے ساتھ جنرل عاصم سلیم باجوہ بھی ہیں جو بہرحال ریٹائرڈ جرنیل ہیں۔

تجربے اور مشاہدے نے بتایا ہے کہ جرنیل عام طور پر بہت اچھی ڈھال ثابت ہوتے ہیں کیونکہ ان کا ’’پسِ منظر‘‘ بہت مضبوط ہوتا ہے۔ میں نے وفاق میں وزارتِ اطلاعات کی صرف پونے دو برس نوکری کی اور جب گیارہ برس بعد پنجاب میں سیکرٹری انفارمیشن بنا تو پتا چلا کہ کچھ بھی نہیں سیکھا تھا۔

کورا کاغذ کورا ہی رہ گیا۔ بہرحال شبلی فراز صاحب کے ارادے نیک ہیں۔ وہ پریس، میڈیا اور حکومت کے درمیان پل بن کر دوستی کا رشتہ استوار کرنا چاہتے ہیں جو مسئلہ کشمیر کی مانند ناممکن ہے۔

چند ہی ہفتوں میں ان شاء اللہ اُن کو اس کا اندازہ ہو جائے گا۔ لیکن میرا بزرگانہ مشورہ یہ ہے کہ اگر محترم شبلی فراز صاحب خوشگوار آغاز چاہتے ہیں اور واقعی پل بننا چاہتے ہیں تو پہلے قدم کے طور پر میر شکیل الرحمٰن کو حبسِ بےجا سے رہا کروائیں کیونکہ شیخ رشید کی مانند نہ ہی اُن سے آج تک کلاشنکوف برآمد ہوئی ہے اور نہ ہی چوہدری ظہور الٰہی کی مانند ان سے چوری کی بھینس برآمد ہوئی ہے۔

مجھے یہ کہنے میں ذرا سی بھی ہچکچاہٹ نہیں کہ میر شکیل الرحمٰن ظلم کی چکی میں پس رہا ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔