کورونا اور امریکا چین ٹیکنالوجی کی سرد جنگ

کورونا نے ایک طرف دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا اور تو دوسری جانب امریکا اور چین کےدرمیان سرد جنگ میں ہرگزرتے دن کےساتھ اضافہ ہورہاہے۔ کووڈ 19 سے تین لاکھ سے زائد لوگ موت کی آغوش میں جا چکے ہیں تو وہیں پچاس لاکھ کےقریب متاثر ہوئےہیں۔ 

لاک ڈاؤن کی وجہ سے عالمی معیشت کو اربوں ڈالر کو جھٹکا لگ چکا ہے اور محتاط اندازے کے مطابق دنیاکو ساڑھے 8 ہزار ارب ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑسکتاہے۔عالمی ادارہ صحت نےتو یہاں تک کہہ دیاہےکہ یہ وائرس شاید کبھی ختم نہ اور انسانوں کو اس وائر س کےساتھ ہی جینا پڑے گا۔ کئی مہینوں کے لاک ڈاؤن کےبعد کچھ ملکوں میں احتیاطی تدابیر کے ساتھ لاک ڈاؤن میں نرمی شروع ہوچکی ہے ،لیکن ا ب بھی کروڑوں لوگ گھروں میں محصور ہیں ۔کاروبار نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کو شدید مالی بحران کاسامناہے۔ امریکا سمیت کچھ ملکوں میں طویل لاک ڈاؤن سے اکتائے لوگوں نے احتجاج کاسلسلہ بھی شروع کردیاہے۔

دوسری جانب امریکا اور چین کےدرمیان لطفی جنگوں کےتبادلے بھی جاری ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کورونا وائرس کےپھیلاؤ میں چین کےملوث ہونے کاالزام عائد کیاہےاور چینی صدر شی جِنگ پِنگ سے بات کرنےسے بھی انکا رکردیاہے ۔ساتھ ہی چین کو دھمکی دے ڈالی ہےکہ اگر یہ بات ثابت ہوگئی کہ چین کورونا کے پھیلانے میں ملوث ہے تو اسے نتائج بھگتنا ہوں گے۔ 

امریکا نےعالمی ادارہ صحت پر بھی چین کی حمایت کا الزام عائد کرتےہوئے فنڈرزروکنے کی دھمکی دی ہے۔اُدھر چین کی جانب ان الزامات کی تردید کی گئی ہے۔ عالمی ادارہ صحت نے بھی عالمی طاقتوں کو مشورہ دیاہےکہ یہ وقت جھگڑے کانہیں بلکہ مل کر اس وباسے نمٹنے کا ہے۔

ایسے حالات میں جب پوری دنیا کورونا سے سہمی ہوئی گھروں میں بیٹھی ہے، امریکا نے ایک بار سےپھر سے جنوبی ایشیا کی متنازعہ سمندری حدود میں بحری جہازوں کی نقل و حمل کو تیز کردیاہے۔سی این این کی رپورٹ کےمطابق پینٹاگون کی جانب سے ایک بیان میں کہاگیاہےکہ چین کوروناکی آڑ میں ملٹری اور معاشی فائدہ اٹھانا چاہتاہے،لیکن امریکا ایسا ہونے نہیں دےگا۔ 

ائیرفورس گلوبل اسٹرائیک کے کمانڈر جنرل ٹموتھی رے کاکہناہےکہ امریکا دنیا کے کسی بھی کونے او رکسی بھی وقت حتی کے کورونا کےوبائی دورمیں بھی میزائلوں کےذریعےجواب دینے کی صلاحیت رکھتاہے۔چینی فوج کےترجمان کرنل لی ہیومن کاکہناہےکہ امریکا فوجی نقل و حرکت سے باز رہتےہوئے کوروناسے نمٹنے کی عالمی کوششوں کا ساتھ دے۔

امریکا اور چین کےدرمیان سرد جنگ صرف یہاں تک نہیں رکی ہوئی ہےکہ بلکہ اس سے پہلےامریکا کی جانب سے چینی کمپنی ہواوےپرجاسوسی کےالزام کےبعد عالمی پابندی بھی لگائی جاچکی ہے۔ دنیا میں ٹیلی کام نیٹ ورک کے لیے آلات بنانے والی چین کی سب سے بڑی کمپنی ہواوےکوروکنے کےلیے،امریکا مبینہ طورپر دباؤ کےذریعے تائیوان کی کمپنی ٹی ایس ایم سی سے 12بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کےساتھ امریکی ریارست ایریزونا میں فیکٹری لگانے کا اعلان کرانےمیں بھی ا ب کامیاب ہوگیاہے۔

امریکی وزیرخارجہ مائیک پومپیو نے ٹوئٹر پیغام میں کہاہےکہ ٹی ایس ایم سی کے امریکی سرزمین پر فیکٹری لگانے کے اعلان سے امریکا کی قومی سلامتی میں اضافہ ہوگا،وہ بھی ایسے وقت میں ضروری ہے ،جب چین ٹیکنالوجی کے ذریعے برتری اور کنٹرول حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔اُن کا مزید کہناتھاکہ اس سرمایہ کاری سے امریکا کی معاشی خود انحصاری میں اضافہ ہوگا، ساتھ ہی امریکا اور تائیوان کےتعلقات مزید مستحکم ہوں گے۔ اس سےپہلےچینی وزارت خارجہ کے ترجمان جینگ شوانگ اپنے ایک بیان میں کہہ چکےہیں تائیوان کو چین سے علیحدہ کرنے کی کوششوں پراُن کا ملک خاموش نہیں رہے اور طاقت کےاستعمال سےبھی نہیں کترائے گا۔ساتھ ہی انہوں نےعالمی برادری سےبھی امید ظاہر کی وہ علیحدگی پسند قوتوں کی مخالفت کرتےہوئے چین کا ساتھ دے گی۔ ایسی صورتحال میں ٹی ایس ایم ایس کا امریکا میں فیکٹری لگانے کا اعلان امریکا کےلیے کتنا فائدے مند ہوسکتاہے اور امریکا ا س سے کیسےچینی ٹیکنالوجی کامقابلہ کرسکتاہے، اس بارے میں کچھ کہناقبل از وقت ہوگا۔

فیکٹری کےقیام کےاعلان کےساتھ ہی امریکی محکمہ تجارت نے برآمد ی قواعد میں تبدیلی کرتے ہوئے ہواوے ٹیکنالوجیز کو عالمی سیمی کنڈکٹر انڈسٹری سے سامان کی ترسیل پر پابندی لگادی ہے۔محکمہ کاکہناہےکہ پابندی کا مقصد امریکی سافٹ وئیر اور ٹیکنالوجی کی مدد سےہواوے کو سیمی کنڈکٹرز کی فراہمی سے روکناہے۔ہواوے کےچیئرمین ایرک شوامریکی اقدامات پر چینی حکومت کی جانب سے ممکنہ جوابی کارروائی کا اشارہ دے چکےہیں ۔اُن کاکہناتھاکہ کمپنی کونقصان پہنچانےکی صورت میں چین خاموشی سے تماشا نہیں دیکھےگا۔سیمی کنڈکٹر انڈسٹری کےصدر جان نیوفرکاکہناہےکہ امریکی پابندیوں سےسیمی کنڈکٹرکی عالمی انڈسٹری میں غیر یقینی صورتحال اور خلل پیدا ہوگا۔

چین پچھلے کچھ سالوں سے فتھ جینریشن ٹیکنالوجی پربلین ڈالرز کی سرمایہ کاری کرنےمیں مصروف ہے ۔اس ٹیکنالوجی سے ناصرف صارفین کو تیز ترین انٹرنیٹ کی سہولیات میسر آسکیں گے بلکہ اس سے مصنوعی ذہانت کو نئی جان ملے گی۔جس سے سمارٹ شہر ، خودمختار نقل و حمل اور جدید صنعت کا فروغ ممکن ہوسکےگا۔تاریخ میں یہ پہلی بار ہےکہ چین ٹیکنالوجی کی دنیا میں امریکا کو شکست دینے کےقریب ہے۔جس میں کامیابی کی صورت میں امریکا کی سلامتی کا خطرات لاحق ہوسکتےہیں ،جس کا اظہار امریکی عہدیدار کئی مواقع پر کرچکے ہیں۔

ٹیکنالوجی کی اس جنگ میں کون کامیاب ہوتا اورکون کس کو روکنے یا نقصان پہنچا پاتاہے، یہ تو وقت طے کرے گا ،تاہم ماہرین کاکہنا ہےکہ کورونا کی صورتحال اور امریکا چین کےدرمیان ٹیکنالوجی کی جنگ سے لوگوں اور کاروبارکو نقصان پہنچنے کا خدشہ ضرور ہےاور دنیا دوحصوں میں بٹ سکتی ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔