Time 02 جون ، 2020
پاکستان

ن لیگ اور پی ٹی آئی حکومتیں شوگر کارٹل کے اشاروں پر چلتی رہیں

فوٹو فائل—

شوگر کمیشن کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ شوگر کارٹل حکومتوں کو بلیک میل کرتا رہا ہے اور انہیں ڈکٹیشن دیتا رہا ہے تاکہ عوامی مفاد کی قیمت پر زیادہ سے زیادہ منافع کما سکے۔

پی ٹی آئی کی موجودہ اور ن لیگ کی سابقہ حکومتیں شوگر لابی کے اشاروں پر ناچتی رہیں اور ایسے فیصلے کیے جن کی وجہ سے شوگر مل مالکان کے مفادات کو فائدہ پہنچا۔

2014-15ء کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن (پی ایس ایم اے) نے اس وقت کے سیکرٹری تجارت شہزاد ارباب (موجودہ ایس اے پی ایم برائے اسٹیبلشمنٹ) کے ساتھ 11؍ نومبر 2014ء کو ہونے والی ملاقات میں اگلے سال کرشنگ سیزن شروع کرنے کی ذمہ داری قبول کی بشرط یہ کہ حکومت چینی کی درآمد پر 25؍ فیصد امپورٹ ڈیوٹی عائد کرنے پر اتفاق کرے اور 0.5؍ ملین میٹرک ٹن چینی برآمد کرنے کی اجازت دے، اور ایس آر او2013 (1)77 کی بحالی اور اس کی توسیع کی جائے تاکہ ڈالر ٹرم پر زمینی ذرائع سے چینی افغانستان برآمد کی جا سکے اور چینی کی برآمد پر سبسڈی بھی دی جائے۔

اگلے دن 7؍ نومبر 2014ء کو وزارت تجارت نے یہی تجاویز ای سی سی کو بھجوائیں جس نے 12؍ نومبر کو 0.5 ملین میٹرک ٹن چینی برآمد کرنے، چینی کی درآمد پر 20 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کرنے اور افغانستان اور اس کے آگے مذکورہ بالا ایس آر او کے تحت چینی برآمد کرنے کی اجازت دی۔

ای سی سی نے یہ سب ریونیو ڈویژن کی مخالفت کے باوجود کیا۔ سیکرٹری تجارت نے 12 دسمبر 2014ء کو ایک مرتبہ پھر پی ایس ایم اے کے ساتھ بین الوزارتی اجلاس کی صدارت کی اور تجویز دی کہ چینی کی برآمد کا کوٹہ 0.5 سے بڑھا کر 0.6 ملین میٹرک ٹن کی جائے، ریگولیٹری ڈیوٹی چینی کی درآمد پر عائد کی جائے۔

افغانستان برآمد کی جانے والی چینی کی کم از کم قیمت 450 ڈالر فی میٹرک ٹن مقرر کی جائے، ان لینڈ فریٹ سبسڈی 2 روپے فی کلوگرام (مالیت 1.3؍ ارب روپے) مقرر کی جائے، چینی کی برآمد پر نقد سبسڈی 8 روپے فی کلوگرام (مالیت 5.2؍ ارب روپے) مقرر کی جائے۔

سبسڈی کیلئے مجموعی طور پر 6.5 ارب روپے دیے جائیں گے جو وفاقی اور تمام صوبائی حکومتیں مل کر ادا کریں گی۔ 23 دسمبر 2015ء کو سیکریٹری تجارت نے یہی تجاویز ای سی سی کو ارسال کی جس نے اگلے ہی دن ان کی منظوری دیدی۔ کمیشن نے اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ پی ایس ایم اے نے حکومت کو اپنے مطالبات کرشنگ سیزن شروع ہونے سے قبل ہی پیش کیے تاکہ چینی کی ایکسپورٹ کی اجازت لی جا سکے بصورت دیگر وہ کرشنگ سیزن شروع نہ کر پاتے۔

رپورٹ میں لکھا ہے کہ اگلی سبسڈی اسکیموں کے جائزے سے معلوم ہوا ہے کہ یہ وہ انداز ہے جو پی ایس ایم اے نے ہر کرشنگ سیزن کے آغاز کے وقت اپنا رکھا ہے۔اگلے سال 20؍ نومبر 2015ء کو پی ایس ایم اے نے اس وقت کے وزیراعظم میاں نواز شریف سے ملاقات کی۔ پانچ دن بعد 25نومبر 2015ء کو وزیراعظم نے بین الوزارتی کمیٹی تشکیل دیتے ہوئے شوگر ملز کے مسائل کا جائزہ لینے کا حکم دیا۔

اس کمیٹی کا اجلاس 30 نومبر 2015ء اور 3 دسمبر 2015ء کو ہوا جس میں سیکرٹری کامرس شہزاد ارباب نے شرکت کی۔ کمیٹی نے 0.25 ملین میٹرک ٹن چینی کی مارچ 2016ء تک برآمد کی تجویز دی اور ساتھ ہی سفارش کی کہ فی کلوگرام پر 10 روپے سبسڈی دی جائے۔

6 دسمبر 2015ء کو شہزاد ارباب کی زیر صدارت ایک اور اجلاس منعقد ہوا جس میں سفارش کی گئی کہ 0.5؍ ملین میٹرک ٹن چینی کی ایکسپورٹ کی اجازت دی جائے، 13 روپے فی کلوگرام کی نقد فریٹ سپورٹ دی جائے جو وفاقی اور صوبائی حکومتیں مل کر ادا کریں گی۔

افغانستان کیلئے فی میٹرک ٹن چینی کی کم از کم قیمت 450 ڈالرز مقرر کی جائے، نقد سپورٹ اسٹیٹ بینک کے ذریعے ادا کی جائے۔ اگلے دن 7 دسمبر 2015ء کو ای سی سی نے تمام سفارشات منظور کر لیں۔

کمیشن نے اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ کرشنگ سیزن کے آغاز سے قبل پی ایس ایم اے حکومت پر دبائو ڈالتی ہے کہ سبسڈی کے ساتھ چینی کی برآمد کی اجازت دی جائے۔ حکومت دبائو میں آ کر اس کی اجازت دیتی ہے۔ اگلے سال 19 دسمبر 2016ء کو شوگر ایڈوائزری بورڈ کا اجلاس وزارت فوڈ سیکورٹی میں منعقد ہوا جس میں 0.3؍ ملین میٹرک ٹن سرپلس چینی کی بغیر سبسڈی برآمد کی تجویز دی۔

وزارت تجارت نے 0.22 ملین میٹرک ٹن چینی کی ایکسپورٹ کی تجویز ای سی سی کو دی جس نے 28؍ دسمبر 2016ء کو اس کی منظوری دی۔ 16مارچ 2017ء کو ایس اے بی کا اجلاس ہوا جس میں مزید 0.4 ملین میٹرک ٹن چینی کی برآمد کی اجازت دی گئی۔

وزارت تجارت نے اگلے دن ای سی سی کو تجویز دی کہ 0.2؍ ملین میٹرک ٹن چینی برآمد کی اجازت دی جائے۔ 28؍مارچ 2017ء کو ای سی سی نے وزارت تجارت کی سمری منظور کرلی۔ دو ماہ بعد مئی 2017ء میں ایس اے بی نے پی ایس ایم اے کے ساتھ مشاورت کے بعد تجویز دی کہ مزید 1.2؍ ملین میٹرک ٹن چینی کی برآمد کی اجازت دی جائے اور اس کیلئے وقت کی کوئی حد مقرر نہ کی جائے۔

وزارت تجارت نے جولائی 2017ء میں 0.6 ملین میٹرک ٹن چینی کی برآمد کی تجویز دی جبکہ ای سی سی نے صرف 0.3؍ ملین میٹرک ٹن کی برآمد کی اجازت دی؛ وہ بھی بنا سبسڈی کے۔ 7؍ ستمبر 2017ء کو پی ایس ایم اے نے حکومت کے ساتھ منعقدہ ایک اجلاس میں مطالبہ کیا کہ 2 ملین میٹرک ٹن چینی کی ایکسپورٹ کی اجازت دی جائے اور اس کیلئے 18؍ روپے فی کلوگرام کی سبسڈی بھی دی جائے۔

پی ایس ایم اے نے وزیراعظم سے ان کے دفتر میں اسی دن ملاقات بھی کی۔ 12؍ ستمبر 2017ء کو سیکریٹری تجارت یونس ڈھاگا کی زیر صدارت ایک اجلاس ہوا۔ اجلاس کے ذریعے ای سی سی کو سفارشات بھیجی گئیں جس کے بعد فیصلہ ہوا کہ 0.5؍ ملین میٹرک ٹن چینی ایکسپورٹ کی جائے گی، 10.7؍ روپے فی کلوگرام سبسڈی دی جائے گی۔

سبسڈی کا بوجھ وفاقی اور صوبائی حکومتیں مل کر برداشت کریں گی۔ 27 نومبر 2017ء کو سیکرٹری تجارت یونس ڈھاگا نے سمری ای سی سی کو بھجوائی کہ چینی ایکسپورٹ کی اجازت دی جائے۔

28؍ نومبر کو ای سی سی نے فیصلہ کیا کہ مزید 1.5؍ ملین میٹرک ٹن چینی برآمد کی اجازت دی جاتی ہے جس کیلئے شرائط وہی رہیں گی جو 14؍ ستمبر 2017ء کے اجلاس میں مقرر کی گئی تھیں۔

22 نومبر 2017ء کو سیکریٹری زراعت سندھ نے چینی برآمد کیلئے سبسڈی دینے کی سمری پیش کی۔ انہوں نے کابینہ کو بتایا کہ پی ایس ایم اے نے اضافی سپورٹ سبسڈی 9.30؍ روپے فی کلوگرام پر طلب کی ہے اور ساتھ ہی مزید 10.70 روپے فی کلوگرام سبسڈی اس کے علاوہ ہے جو پہلے ہی وفاقی حکومت منظور کر چکی ہے۔

لیکن وزیر برائے خوراک اور سیکرٹری فنانس کی مخالفت کے باوجود کابینہ نے اضافی نقد فریٹ سپورٹ 9.30 روپے فی کلوگرام کی منظوری دی اور ساتھ ہی 50 فیصد اضافی شیئر نقد کی صورت میں فریٹ سپورٹ کی مد میں دیا جو 10.70روپے فی کلوگرام تھا جو وفاقی حکومت نے منظور کیا تھا۔ اگلے سال 11ستمبر 2018ء کو کامرس ڈویژن نے ای سی سی کو اپنی سفارشات بھجوائیں جس نے 2 اکتوبر 2018ء کو ایک ملین میٹرک ٹن چینی ایکسپورٹ کی اجازت دی اور اس کیلئے کوئی فریٹ یا مالی معاونت مل مالکان کو وفاق یا صوبوں کی طرف سے نہیں دی جائے گی۔

3دسمبر 2018ء کو پی ایس ایم اے نے وزیراعظم کے مشیر برائے تجارت اور وزیر برائے فوڈ سیکورٹی سے ملاقات کی اور مطالبہ کیا کہ مزید ایک ملین میٹرک ٹن چینی کی برآمد کیلئے شرائط نرم کی جائیں جبکہ مزید 0.1 ملین میٹرک ٹن چینی کی برآمد کی اجازت دی جائے۔

پی ایس ایم اے نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ وفاقی حکومت فوری طور پر 2 ارب روپے سبسڈی کی مد میں بقایہ جات کے جاری کرے اور ساتھ ہی صوبوں سے کہا جائے کہ وہ فریٹ سپورٹ ادا کریں۔

4 دسمبر 2018ء کو ای سی سی کا اجلاس ہوا جس میں ایکسپورٹ کوٹہ میں 0.1 ملین میٹرک ٹن کا اضافہ کیا گیا۔ ای سی سی نے وزارت خزانہ کو ہدایت کی کہ سبسڈی کی مد میں دو ارب روپے کی بقایہ جات جاری کریں۔

ای سی سی نے یہ بات صوبوں پر چھوڑ دی کہ وہ سبسڈی شوگر مل مالکان کو دینا چاہتے ہیں یا نہیں۔ بعد میں پنجاب حکومت کے ساتھ وزیراعلیٰ پنجاب کے توسط سے پی ایس ایم اے والوں نے رابطہ کیا اور ان سے تین ارب روپے کی سبسڈی منظور کرائی۔

مزید خبریں :