ہے عجب فیصلے کا صحرا بھی!

جسٹس قاضی فائز عیسی نے اپنا مقدمہ بڑی محنت اور عزم کے ساتھ لڑا اور ان پر کوئی الزام ثابت نہیں ہوا—فوٹو فائل

سپریم کورٹ کے جج جناب جسٹس قاضی فائز عیسی کیس میں سپریم کورٹ کے دس رکنی فاضل بنچ نے جو فیصلہ دیا ہے، میں اس فیصلے کی آئینی و قانونی توضیحات پیش نہیں کروں گا۔ 

اگرچہ میں پیشے کے اعتبار سے وکیل ہوں اور عمر گزری ہے اس دشت کی سیاحی میں لیکن قانون کے ایک طالبعلم کیساتھ ساتھ ایک سیاسی کارکن کی حیثیت سے میں نے پاکستان کی تاریخ سے یہ سبق سیکھا ہے کہ عدالتی فیصلوں کی قانونی موشگافیوں میں الجھنے کے بجائے ایسے فیصلوں پر اس وقت کی اجتماعی سیاسی دانش سے رہنمائی حاصل کی جائے اور معاملات کی تفہیم کی جائے اور ان کا perceptionدیکھا جائے۔ 

اب تو عادت سی ہو گئی ہے کہ عدالتی فیصلوں کے سیاسی اثرات کا ادراک حاصل کرنے کی کیونکہ پاکستان کے ہر بڑے عدالتی فیصلے کے پاکستان کی تاریخ اور سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ شعور کی صراحت کیلئے ہر عدالتی فیصلے پر ’’ہمزاد‘‘ خود یہ فیصلہ کر رہا ہوتا ہے کہ یہ فیصلہ کیا ہے۔ ایسا نہ کریں تو کرب ناقابل برداشت ہوتا ہے۔ بقول جون ایلیا؎

ہے عجب فیصلے کا صحرا بھی

چل نہ پڑیے تو پائوں جلتے ہیں

جب سے جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف صدارتی ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل کو ارسال کیا گیا ہے، تب سے ملک کی بنیادی دھارے کی تمام سیاسی جماعتیں اور وکلا برادری کی ہمدردیاں جسٹس قاضی فائز عیسی کے ساتھ ہو گئی ہیں۔ 

جسٹس قاضی فائز عیسی نے صدارتی ریفرنس کو بدنیتی پر مبنی قرار دیتے ہوئے اسے ختم کرنے کیلئے سپریم کورٹ میں درخواست دی تو پاکستان کی مرکزی اور صوبائی بار کونسلز کے ساتھ ساتھ کئی دیگر لوگ بھی اس کیس میں فریق بن گئے۔ سیاسی جماعتوں اور بار کونسلز نے یہ فیصلہ کیوں کیا اور وہ جسٹس قاضی فائز عیسی کے دفاع میں کیوں کھڑی ہو گئیں؟

ان سوالوں کے مختلف حلقے مختلف جوابات دے سکتے ہیں لیکن حقیقت کو نہ سمجھنا تجاہل عارفانہ ہے۔ میں اس بات کو پاکستان کی سیاسی تاریخ کے تناظر میں دیکھتا ہوں اور میرا یہ طرزِ فکر یقیناً توہین عدالت کے زمرے میں نہیں آنا چاہیے۔ 

میں یہ سمجھتا ہوں کہ سیاسی جماعتوں اور بار کونسلز کی اجتماعی دانش غلط نہیں ہو سکتی۔ اگر یہ اجتماعی دانش قانونی طور پر عدالت میں اپنے آپ کو درست ثابت نہ بھی کر سکے تو بھی کوئی مسئلہ نہیں۔ تاریخ میں کئی بار اجتماعی سیاسی دانش عدالتوں میں غلط ثابت ہوئی ہے لیکن وقت نے بعد ازاں اسے درست ثابت کیا۔

سپریم کورٹ کے دس رکنی فاضل بینچ کے جسٹس قاضی فائز عیسی کیس کے فیصلے پر سیاسی جماعتوں اور وکلا برادری نے خوشی کا اظہار کیا ہے۔ بینچ کی طرف سے جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف صدارتی ریفرنس کو کالعدم قرار دیا گیا ہے، جسے سیاسی جماعتوں اور بار کونسلز نے آئین اور قانون کی بالادستی اور انصاف کی فتح سے تعبیر کیا ہے۔ 

اگر ایسا ہے تو ہم جیسے لوگوں کیلئے خوشی کی بات ہے، جنہوں نے آئین اور قانون کی بالادستی اور انصاف کی فتح کیلئے پاکستان کے عوام کی عظیم جدوجہد میں اپنا معمولی سا حصہ ڈالا ہے۔ ہم نے تو ان لمحات کے انتظار میں زندگی بتا دی ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے سے مجھے سب سے زیادہ خوشی اس بات کی ہوئی کہ جسٹس قاضی فائز عیسی پر وہ الزامات اب تک ثابت نہیں ہوئے، جو صدارتی ریفرنس میں ان پر عائد کئے گئے تھے۔ 

میں اس بات کا حامی ہوں کہ ججز سمیت سب کا احتساب ہونا چاہئے لیکن اب اس حقیقت کو بیان کرنے میں کیا تکلف کہ میں احتساب کو پاکستان میں ہر برائی کی جڑ سمجھتا ہوں۔ جسٹس قاضی فائز عیسی کیس میں ایک فاضل جج جسٹس مقبول باقر صاحب کے ریمارکس پاکستان کی تاریخ کا نچوڑ ہیں کہ احتساب نے سب کچھ تباہ کر دیا ہے۔

ہم نے اس احتساب کے ذریعے کرپشن کو پروان چڑھتے دیکھا۔ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ جمہوری اور سیاسی تحریکوں کے بنیادی دھارے سے الگ ہونے والے یا ان کی مخالفت کرنے والے نام نہاد سیاستدانوں کیساتھ ساتھ غیر سیاسی لوگوں کو سیاست میں آگے لاکر کس طرح نوازا گیا اور انہیں لوٹ مار کی مکمل آزادی دی گئی۔ ہم نے منصوبہ بندی کے ساتھ سیاست میں کرپشن کو رائج ہوتے دیکھا۔ اب رواج یہ ہے کہ کرپشن کے خلاف نعرہ لگائو اور سیاست کو گالی بنا دو، پھر جو مرضی آئے، وہ کرو۔

شکر ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسی نے اپنا مقدمہ بڑی محنت اور عزم کے ساتھ لڑا اور ان پر کوئی الزام ثابت نہیں ہوا۔ ان کے وکلا منیر ملک، حامد علی خان، رشید رضوی اور رضا ربانی نے اس کیس کی پیروی میں بڑی محنت کی۔ ہماری عدلیہ ارتقا پذیر ہے۔ چیزیں تبدیل ہو رہی ہیں۔ 

آج کے جج صاحبان ماضی کے عدالتی فیصلوں پر تنقید کرتے ہیں لیکن احتساب کی کاری ضربیں جس طرح سیاست اور سیاسی اداروں نے برداشت کی ہیں اور آج بھی قاضی فائز عیسی کیس میں اپنی پوزیشن لئے کھڑی ہیں، اس طرح کی احتساب کی کاری ضربوں سے اللہ پاک ہماری عدلیہ کو اس مرحلے پر محفوظ رکھے اور ہمارے کسی معزز جج پر مس کنڈکٹ اور کرپشن کا الزام ثابت نہ ہو۔ ہم نے احتساب سے سیاسی جماعتوں کو بہت کمزور اور سیاسی و جمہوری اداروں کو تباہ ہوتے دیکھ لیا ہے اور یہ ہماری زندگی کا سب سے بڑا المیہ ہے۔ 

احتساب کی تلوار کا رخ میڈیا کی طرف بھی ہو گیا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسی کا معاملہ ابھی ختم نہیں ہوا، ان کی اہلیہ اور بچوں کی جائیدادوں اور ٹیکس کے معاملات کے بارے میں ایف بی آر کو تحقیقات کا حکم دیا گیا ہے جبکہ ایک کھڑکی کھلی رکھی گئی ہے جہاں کا قانون بقول شاعر یہ ہے کہ ؎

ہو بے گناہ تو ہونے سے کچھ نہیں ہو گا

ثبوت دیجئے رونے سے کچھ نہیں ہو گا

ایف بی آر کی رپورٹ سپریم جوڈیشل کونسل کو جائے گی۔ رپورٹ کی روشنی میں کونسل یہ فیصلہ کرے گی کہ جسٹس فائز عیسی کے خلاف کوئی مزید کارروائی کی جائے یا نہیں۔ پھر رب تعالی سے دعا کرتا ہوں کہ ایف بی آر کچھ ایسا ثابت نہ کر سکے جس سے احتساب کا ہتھیار عدلیہ پر استعمال ہو۔ یہ مرحلہ پاکستان کی تاریخ کا نازک ترین مرحلہ ہے۔ اگر شروع سے احتساب مخصوص ایجنڈے کے تحت نہ ہوتا اور بلاامتیاز ہوتا تو آج کرپشن سے زیادہ احتساب کی تباہ کاریوں کا خوف نہ ہوتا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔