Time 22 جولائی ، 2020
بلاگ

با عزت زندگی گزارنے کا صحیح طریقہ

فوٹو: فائل

دروازے کی گھنٹی بجی، صاحبِ خانہ نے گھڑی دیکھی، رات کا پہر تھا، شب خوابی کا لباس پہنے انہوں نے دروازہ کھولا تو بھونچکے رہ گئے۔ دروازے پر ڈیڑھ درجن پولیس کی گاڑیاں اور باوردی اہلکار بندوقیں سنبھالے یوں چوکس کھڑے تھے جیسے انہوں نے گھر سے کسی دہشت گرد کو برآمد کرنا ہو۔ یہ سفید پوش لوگوں کا محلہ تھا اور جس گھر پر یہ دھاوا بولا گیا تھا وہ بھی ایسے ہی ایک مڈل کلاس شہری کا گھر تھا۔

اُس شریف آدمی نے بدقت تمام اپنے حواس مجتمع کرکے پولیس والوں سے شانِ نزول پوچھی تو ایک تھانیدار نے آگے بڑھ کر جواب دیا کہ آپ کو ہمارے ساتھ چلنا ہوگا۔ کس جرم میں؟ یہ بعد میں بتائیں گے۔ کوئی پرچہ، کوئی مقدمہ؟ وہ بھی ہو جائے گا، بس ساتھ چلیں۔

اپنی دوائیاں لے لوں، کپڑے تبدیل کر لوں؟ جی نہیں، ایسے ہی آ جائیں۔ پھر وہی ہوا جو ایسے معاملات میں ہوا کرتا ہے، اُس شخص کو بغیر کوئی وجہ بتائے حوالات میں پھینک دیا گیا۔

اگلی صبح متعلقہ ایس ایچ او نے پرچہ کاٹا جس میں لکھا کہ رات وہ گشت پر تھا جب اسے (مخبر سے) اطلاع ملی کہ عرفان صدیقی نامی ایک آدمی نے کرایہ داری ایکٹ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنا مکان ایک شخص کو کرائے پر دیا ہے، اطلاع مصدقہ تھی لہٰذا فوری طور پر ’ملزم‘ کے گھر پر چھاپہ مار کر اسے گرفتار کر لیا گیا۔

اگلے روز ملزم عرفان صدیقی کو ہتھکڑی لگا کر اسلام آباد میں ایک خاتون اسسٹنٹ کمشنر کی عدالت میں پیش کیا گیا جس نے اطمینان سے ملزم کو چودہ روز کے لیے جیل بھیج دیا۔ باقی تاریخ ہے۔

اِس واقعے کو ایک سال ہو چکا ہے۔ اپنی نوعیت کا یہ پہلا واقعہ ہے اور نہ آخری۔ اِس ملک میں روزانہ کتنے ہی بےگناہ لوگوں کے ساتھ اِس سےبھی بدتر سلوک ہوتا ہے۔ عرفان صدیقی صاحب خوش قسمت تھے کہ انہیں ’عدالت‘ میں پیش کرکے جیل بھیجا گیا اور یوں اُن کے اہلِ خانہ کو اِس بات کی کھوج نہیں لگانا پڑی کہ انہیں کس نے اٹھایا اور اب انہیں کہاں تلاش کیا جائے۔

ورنہ ایسے لوگ بھی ہیں جو برسوں سے اپنے پیاروں کی راہ تک رہے ہیں اور ہاتھوں میں کتبے پکڑ کر انہیں تلاش کرتے پھر رہے ہیں جو کسی اندھیری رات میں غائب ہوئے تھے اور پھر لوٹ کر نہیں آئے۔ ان کی مائیں، بہنیں، بیویاں، بیٹیاں در بدر سوال پوچھتی پھرتی ہیں مگر انہیں جواب نہیں ملتا۔ عرفان صدیقی کا معاملہ البتہ مختلف ہے۔

آج ایک دودھ پیتا بچہ بھی یہ بات جانتا ہے کہ عرفان صاحب کو کسی نام نہاد کرایہ داری ایکٹ کی خلاف ورزی پر گرفتار نہیں کیا گیا تھا بلکہ ان کے نظریات کی وجہ سے ہتھکڑی لگائی گئی تھی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سی ریاستیں ہوتی ہیں جو محض مخالفانہ نظریات کی بنیاد پر لوگوں کو پابند سلاسل رکھنا چاہتی ہیں اور وہ کون سے ممالک ہوتے ہیں جو اظہار رائے کی آزادی میں یقین رکھتے ہیں۔

ہمارے ہاں امریکی دانشور نوم چومسکی بہت مقبول ہے، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے اپنے ملک کی پالیسیوں کا بدترین ناقد ہے، امریکی اسٹیبلشمنٹ کو وہ تمام برائیوں کی جڑ سمجھتا ہے اور اِس ضمن میں کئی کتابیں لکھ چکا ہے ۔

ہر حکومت کے خلاف بولتا ہے مگر آج تک کسی امریکی حکومت نے اسے ہاتھ نہیں لگایا کیونکہ امریکی نظام مضبوط جمہوری بنیادوں پر کھڑا ہے اور یہ جمہوری بنیاد اسی آزادی اظہار کی وجہ سے مضبوط ہے لہٰذا اسے نوم چومسکی کے افکار سے کوئی خطرہ نہیں۔ دوسری طرف ایسی تمام فسطائی ریاستیں جہاں شہریوں کو حقوق میسر نہیں یا جہاں عوام اپنی مرضی سے سیاسی، سماجی اور معاشی نظام کا انتخاب نہیں کر سکتے، اُن میں اظہار رائے پر قدغن ہے اور وہ ریاستیں اپنے ملک کے عرفان صدیقیوں کو جھوٹے مقدموں میں پھانس کر جیل بھیجنے کو عین ملکی مفاد کے تابع سمجھتی ہیں۔

ایک توجیہہ یہ بھی دی جاتی ہے کہ عرفان صدیقی جیسے لوگوں کو کسی بھی قسم کی سیاسی وابستگی سے دور رہنا چاہیے، اِس قسم کے ادیب لوگ جب کسی سیاست دان کا ساتھ دیں گے تو پھر سیاست کی آلائشوں سے کیسے پاک رہیں گے؟ یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں۔

دنیا بھر میں دانشور، ادیب، یونیورسٹیوں کے پروفیسر، اپنے سیاسی نظریات کا کھل کر اظہار کرتے ہیں اور حکومتیں اِن نظریاتی لوگوں کے مشوروں سے نہ صرف استفادہ کرتی ہیں بلکہ انہیں کابینہ کا حصہ بھی بنایا جاتا ہے۔ ہمارا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ ایک طرف تو ہم ’جاہل سیاست دانوں‘ کی عقلوں کا صبح شام ماتم کرتے ہیں کہ کس قسم کے ان پڑھ لوگ ہم پر مسلط ہیں مگر جونہی کوئی دانشور اپنے نظریات کی بنا پر اِن کا ساتھ دے تو یکدم الزامات کی بوچھاڑ کرکے اُس کی کردار کشی شروع کر دی جاتی ہے۔

دنیا بھر میں زندہ معاشروں میں دانشور اپنے نظریات رکھتے ہیں اور اُن پر فخر کرتے ہیں جبکہ ہم نظریاتی دانشوروں کو طعنے دے کر کہتے ہیں کہ تمہیں سیاسی نظریات کی دلدل میں کودنے کی ضرورت نہیں، چپ چاپ پڑے اینٹھتے رہو یا زیادہ سے زیادہ بےضرر قسم کے افسانے، سفرنامے یا کہانیاں لکھا کرو اور بہت مروڑ اٹھے تو علامتی شاعری کر لیا کرو۔

بات عرفان صدیقی کی نہیں بات اُس جرم کی ہے جو اُن سے سرزد ہوا اور وہ جرم جس کسی سے بھی سرزد ہوگا اُس کے ساتھ وہی ہوگا جو آج میر شکیل الرحمٰن کے ساتھ ہو رہا ہے۔ اگر آپ جاننا چاہتے ہیں کہ اِس ملک میں کامیابی کا کیا فارمولا ہے تو کوئی سیلف ہیلپ کی کتاب پڑھنے کی ضرورت نہیں۔

کسی موٹیویشنل اسپیکر کی گفتگو سننے کا فائدہ نہیں، بس چپ کرکے اِس بات پر غور کریں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ سو چنگھاڑتے ہوئے ٹی وی چینلز کے مالکان میں سے فقط میر شکیل الرحمٰن جیل میں ہے۔

کیا وجہ ہے کہ عرفان صدیقی کو ہتھکڑی لگی، کیا وجہ ہے کہ طلعت حسین جیسا صحافی کسی ٹی وی پر پروگرام نہیں کر سکتا، کیا وجہ ہے کہ مرتضیٰ سولنگی۔۔۔ سوری، میں کچھ زیادہ ہی دور نکل گیا۔ واپس آتا ہوں۔ پیارے بچو، اِس کہانی سے ہمیں یہ سبق ملا کہ اگر آپ نے اِس ملک میں ’کامیاب‘ ہونا ہے تو عرفان صدیقی جیسے سر پھروں کے نقش قدم پر چلنے کی غلطی کبھی مت کریں، کل کو جب عرفان صدیقی صاحب کسی ملک کا ویزا فارم پُر کرنے بیٹھیں گے تو اُس میں انہیں لکھنا پڑے گا کہ وہ ایک مقدمے میں گرفتار ہوکر جیل کی ہوا کھا چکے ہیں۔

ویزا افسر کو کون بتائے گا کہ یہ کیا مقدمہ تھا اور کس بات کی گرفتاری تھی۔سو، خبردار پیارے بچو، آپ کو عرفان صدیقی بننے کی کوئی ضرورت نہیں۔ آپ میر شکیل الرحمٰن کو بھی رول ماڈل نہ بنائیں ۔آپ کا رول ماڈل کوئی پیاز کا آڑھتی، کسی آٹے کی مل کا کروڑ پتی مالک، کوئی پراپرٹی ٹائیکون، کوئی ہومیو پیتھک دانشور یا دوہری شہریت کا حامل کوئی کامیاب کاروباری ہونا چاہئے، ملین ٖڈالر مشورہ ہے، پلے باندھ لیں۔ اِس ملک میں باعزت زندگی گزارنے کا بس یہی صحیح طریقہ ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔