12 اگست ، 2020
مہینوں کے طویل وقفے کے بعد، مریم نواز منگل کو سیاسی منظرنامے پر نظر آئیں ۔ تاہم، وہ مکمل طور پر محتاط تھیں کہ طاقتور حلقوں کیخلاف کوئی لفظ نہ کہیں۔ انہوں نے جارحانہ رویہ اختیار کر رکھا تھا لیکن وہ جانتی تھیں کہ ان کا ہدف کیا ہے اور ساتھ ہی ان کی جماعت سرگرمی کے ساتھ ان لوگوں کے ساتھ ٹوٹے تعلق کو دوبارہ جوڑنے کی کوشش کر رہی ہے ۔
باوجود اس کے کہ ن لیگ کے رہنما کیا دعویٰ کرتے ہیں اور کیا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں، کئی سینئر پارٹی رہنما نہ صرف اہم سمجھے جانے والے لوگوں کے ساتھ رابطے میں ہیں بلکہ اس سے خوش بھی ہیں۔ نون لیگ کے رہنمائوں نے بہت زیادہ اچھے سے یہ سمجھ لیا ہے کہ ان کی حدود کیا ہیں اور وہ کس طرح دوبارہ اقتدار حاصل کر سکتے ہیں۔ ماضی میں چوہدری نثار علی خان نون لیگ اور درست حلقے کے درمیان رابطے کا مرکزی ذریعہ تھے۔ لیکن اب یہ طاقتور حلقوں کی مرضی ہے وہ نون لیگ میں سے جس سے چاہیں اس سے رابطہ کریں۔
شہباز شریف کے اپنے تعلقات ہیں، خواجہ آصف بھی اپنے درست رابطوں کی وجہ سے پارٹی میں اہم بن گئے ہیں۔ سردار ایاز صادق بھی پارٹی میں اسی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں۔ شاہد خاقان عباسی سے بھی کئی مرتبہ رابطے کی کوشش کی گئی ہے لیکن ان کی ’’مذاکرات‘‘ میں فریق بننے سے ہچکچاہٹ انہیں غیر پرجوش لیگی رہنما بناتی ہے۔
ایک ذریعے کے مطابق، نون لیگ کی سینئر قیادت میں ہر شخص اُن لوگوں سے کسی نہ کسی سطح پر رابطے میں ہے۔ ذریعے نے کہا کہ نواز شریف سے حال ہی میں رابطہ کیا گیا تھا کہ وہ ’’قومی حکومت‘‘ کا حصہ بننے پر غور کریں۔ نون لیگ کے سینئر رہنمائوں کی بڑی تعداد اس سیٹ اپ کے حامی تھے۔ توقعات تھیں کہ حالات رواں سال جولائی تک تبدیل ہو جائیں گے۔ تاہم نواز شریف اس پر آمادہ نہ ہوئے۔ اس کے باوجود سرکاری ذرائع کہتے ہیں کہ اگر نواز شریف کو کسی ڈیل کی پیشکش کی جاتی تو وہ اسے قبول کر لیتے اور کسی ڈیل کی پیشکش نہیں کی جا رہی، اپوزیشن والے ایسا صرف دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ کسی طرح کے این آر او پر غور نہیں کیا جا رہا۔
معاہدے پاکستانی سیاست کا حصہ رہے ہیں اور نون لیگ کی سینئر قیادت میں ایسے کئی لوگ ہیں جو ایسی خواہش رکھتے ہیں۔ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے نعرے کیخلاف نون لیگ کے حالیہ سب سے بڑے سمجھوتے کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ ایسا نواز شریف کی مرضی سے ہوا کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کی، ان کے اہلخانہ اور پارٹی رہنمائوں کی مشکلات میں اضافہ ہو۔
نواز شریف اور مریم نواز شریف کو مختلف مقدمات کا سامنا ہے، شہباز شریف نیب کے دائر کردہ کرپشن کے مختلف کیسز میں ضمانت پر ہیں، نواز شریف کے دونوں بیٹوں کو مفرور قرار دیا جا چکا ہے، شہباز شریف کے بڑے صاحبزادے کرپشن ریفرنس میں نیب کی حراست میں ہیں جبکہ چھوٹا بیٹا سلیمان لندن میں ہیں اور نیب کو مطلوب ہیں۔ نواز شریف کے داماد بھی ضمانت پر رہا ہیں جبکہ شہباز شریف کے داماد پاکستان سے باہر ہیں اور نیب کے اشتہاری ہیں۔
نواز اور شہباز شریف کے مرحوم چھوٹے بھائی عباس شریف کے صاحبزادے کو بھی نیب نے کرپشن کیس میں گرفتار کیا تھا لیکن وہ کئی ماہ جیل میں رہنے کے بعد بالآخر ضمانت پر رہا ہو چکے ہیں۔
شریف فیملی کے علاوہ، نون لیگ کے رہنمائوں جیسا کہ شاہد خاقان عباسی، خواجہ سعد رفیق اور ان کے بھائی، احسن اقبال، مفتاح اسماعیل وغیرہ کو بھی جیل اور نیب انکوائری / مقدمات کا سامنا رہا۔ رانا ثناء اللہ کو اے این ایف نے ہیروئن اسمگلنگ کیس میں پکڑ لیا اور مقدمہ بنایا۔
نون لیگ کیخلاف ان حالات نے کئی لیگی رہنمائوں کی ’’انقلابی‘‘ سوچ کو تبدیل کر دیا ہے اور وہ پہلے کی طرح منطق پسند ہو چکے ہیں اور اہم لوگوں کی جانب سے چائے کی دعوت ملنے پر خوش ہو جاتے ہیں۔ ذریعے کا کہنا ہے کہ اس صورتحال نے یقیناً مریم نواز پر اثر مرتب کیا ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔