18 اگست ، 2020
میرے گزشتہ کالم پر تعلیمی نظام کو اسلامی اصولوں کے مطابق استوار کرنے اور تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت اور کردار سازی کو لازم قرار دینے کے لئے سالوں سے جہاد کرنے والے محترم محمود احمد نے مجھے اپنے قیمتی تاثرات پہنچائے جن کو من و عن میں حکومت تک پہنچانے کی ذمہ داری ادا کر رہا ہوں:اسلام علیکم و رحمتہ اللہ آپ کے کالم بعنوان “ قرآن و حدیث پڑھانے پر اعتراض کرنے والے” کا مطالعہ کیا۔
بلاشبہ وزیر تعلیم شفقت محمود صاحب اور NCC کی پوری ٹیم مبارکباد کی مستحق ہے کہ انہوں نے یکساں قومی نصاب کی پرائمری کی دستاویز کی حتمی منظوری دے دی ہے۔ وزیر موصوف نے دینی مدارس کا اعتماد بحال کرنے میں کلیدی رول ادا کیا۔ پرائمری میں ذریعہ تعلیم اور یکساں قومی کتاب کے خیال میں لچک پیدا کی ۔
آخر میں اشرافیہ کے اسکولوں میں بھی اس نصاب کی تنفیذ کا واضع پیغام دیا ہے۔ اسلامیات کی کمیٹی میں علماء کی شمولیت اور ان کی سفارشات کی پزیرائی قابل ستائش ہے۔ اسلامیات کا ا ّول سے شروع ہونا اس میں احادیث نبوی کا شامل ہونا بھی قابل تحسین ہے۔
شفقت محمود صاحب کا یہ کہنا کہ اسلام کے نام پر قائم ہونے والے ملک جہاں مسلمانوں کی واضح اکثریت ہے وہاں مسلمان طلبہ و طالبات کو اسلام نہیں پڑھایا جائے گا تو کیا کوئی دوسرا مذہب پڑھایا جائے گا ؟ ان سے قائم توقعات سے بہت بڑھ کر اور ایک زمینی حقیقت کو تسلیم کرنا ہے۔ انصار عباسی صاحب آپ ان مٹھی بھر لوگوں کی پروا نہ کریں جنہیں اس ملک کے قیام کے مقصد اور دستور پاکستان کی بنیاد ہی سے اتفاق نہیں ۔ ان میں چند نظریاتی سیکولر اور اکثر پاکستان کے دشمنوں کے آلہ کار ہیں۔
میرے جیسے بے شمار لوگ جو تعلیم کو عبادت سمجھ کر اس شعبے سے وابستہ ہیں اس سب کی تحسین کے ساتھ جو نہیں ہوا آپ کے اس کالم کے توسط سے اس کی جانب متوجہ کرنا چاہتے ہیں۔ آپ نےلکھاہےکہ وزیراعظم عمران خان کو پریزنٹیشن میں کہا گیا کہ قومی نصاب کی بنیاد آئین پاکستان ہو گی تو انہوں نے ٹوکا کہ قومی نصاب کی بنیاد قرآن و سنت ہو گی۔ میں نے خود شفقت محمود صاحب سے سنا کہ اگر ایک کمرے میں دینی مدارس ، گورنمنٹ اسکول ، پرائیویٹ اسکول اور اشرافیہ اسکول کے طلبہ کو جمع کیا جائے تو وہ ایک دوسرے کی بات نہیں سمجھ سکتے۔
تعلیمی نظام میں دینی مدارس کے لئے سائنس ، ریاضی اور انگریزی لازمی قرار دی گئی ہے۔ مدارس نے اسے خوش دلی سے قبول کیا۔ یکساں نظام تعلیم کا تو تقاضا تھا کہ اسکولوں میں دو مضامین قرآن اور عربی کا اضافہ ہوتا یوں تمام گورنمنٹ اور پرائیویٹ اسکولوں میں اسلامیات قرآن اور عربی تین اسلامی مضامین اور دینی مدارس میں بھی رسمی تعلیم کے تین مضامین کا اضافہ ہوتا تو اسے یکساں نظام تعلیم قرار دیا جاتا۔
اس وقت تو یہ یکطرفہ نظام تعلیم ہے۔ وفاق اور پنجاب میں لازمی قرآن ایجوکیشن ایکٹ 2017 سے موجود ہے اور گزشتہ برس آزادکشمیر میں بھی یہ قانون سازی ہو چکی ہے لیکن یکساں قومی نصاب میں اسے الگ مضمون کی حیثیت نہیں دی گئی۔
اسی طرح آئین پاکستان عربی کی تعلیم کو ضروری قرار دیتا ہے لیکن نصاب سازی کے اس موقع پر اسے بھی نظر انداز کیا گیا ہے۔ پرویز مشرف کے دور سے انگریزی ، اردو اور معاشرتی علوم سے اسلامی مواد کم کئے جانے کا مسلسل بین الاقوامی دباؤ ہے اور اسلام کو چن چن کر اسلامیات میں داخل کیا جا رہا ہے ۔
عمران خان صاحب کے قرآن و سنت کو قومی نصاب کی بنیاد ہونے اور مدارس اور اسکولوں کی تعلیم میں توازن کے پہلو یکساں نہیں بلکہ یکطرفہ ہیں۔ پرائمری میں اسلامیات میں ناظرہ قرآن کو بھی شامل کر دیا گیا ہے ۔ اس کے لئے جماعت وار حاصلات تعلیم اور نصابی کتاب کی تیاری کے بجائے پاروں کی تعداد لکھ دینے کو کافی سمجھا گیا ہے۔ ملک میں سوا لاکھ گورنمنٹ پرائمری اسکولوں میں پونے چار لاکھ وہ اساتذہ جن کی اکثریت تجوید نہیں جانتی کسی ٹیکسٹ بک کے بغیر کس طرح پڑھائے گی یکساں قومی نصاب اس پر خاموش ہے۔ اس کا تدارک ہونا ضروری ہے۔
آزادکشمیر میں حال ہی میں اسکیم آف اسٹڈی آئی ہے تو اس میں قرآن کو اسلامیات کے علاوہ ہفتے میں پانچ پیریڈ دیئے گئے ہیں۔وہاں عربی بھی ایک ایکٹ کے ذریعے لازمی ہے ۔ اگر وہاں اس کے لئے وقت نکل سکتا ہے تو باقی ملک میں کیوں نہیں نکل سکتا۔ ہم عمران خان صاحب اور شفقت محمود صاحب سے توقع رکھتے ہیں کہ مڈل کے مرحلے میں اس کمی کا ازالہ کر کے قرآن کو الگ مضمون کا درجہ دیں گے اور آئین پاکستان کے تقاضے کے مطابق عربی کو لازمی قرار دیں گے۔
تمام مکاتب فکر کے علماء کی تین سال کی محنت سے تیار کیا گیا متفقہ ترجمہ قرآن تکمیل کے بعد پانچ ماہ سے ایک حکم کی شکل میں نافذ ہونے کا منتظر ہے اس کی منظوری کے احکامات جاری کئے جائیں۔
ہمارا نظام تعلیم کردارسازی میں ناکام ہے ۔ ملک میں موجود سارے بحرانوں نے کردارسازی کے بحران سے جنم لیا ہے ۔ نصاب سازی کا اگلا مرحلہ یعنی مڈل کردارسازی کے لئے سب سے اہم ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ اس پر بھی توجہ دی جائےگی۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔