18 اگست ، 2020
اسلام آباد: وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ لمبے عرصے تک وزیر خارجہ نا ہونے کے باعث سفارتی سطح پر اپنا نقطہ نظر پیش نا کرسکے۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان کو سفارتی تنہائی کی طرف دھکیلنا بھارت کی کوشش رہی، لمبے عرصے تک ہمارا وزیر خارجہ نہیں رہا اور وزیر خارجہ نا ہونے کے باعث سفارتی سطح پر اپنا نقطہ نظر پیش نا کرسکے۔
انہوں نے کہا کہ آج چین، نیپال اور بنگلا دیش بھارت پر سوال کر رہے ہیں، بھارت ہمیں ساوتھ ایشیاء سے الگ کرنا چاہ رہا تھا لیکن اب جنوبی ایشیائی ممالک ہندوستان سے سوال کر رہے ہیں۔
وزیر خارجہ کا کہنا تھاکہ ہم چین کے اسٹریٹیجک تعلقات کو معاشی تعلقات میں بدل رہے ہیں، چین ہمارا آزمایا ہوا دوست ہے، سی پیک ٹو میں معاشی اہداف رکھے گئے ہیں، آج چین بھی بھارت کے توسیع پسندانہ سوچ کے خلاف کھڑا ہے۔
شاہ محمود قریشی نے مزید کہا کہ ترکی کے ساتھ تجارت کو فروغ دینے کی سوچ حقیقت بن چکی ہے، ہم پڑوسی ممالک کے ساتھ مثالی دوستی کو نئی معاشی پارٹنرشپ میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں، وزیراعظم ترکی گئے تو لنچ کی ٹیبل پر فیصلہ ہوا کہ تجارت کو فروغ دیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ افریقہ پر ہماری توجہ نہیں تھی ،ہم نے افریقی مارکیٹ تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کی، افریقہ بہت بڑی مارکیٹ ہے، افریقہ میں نئے سفارت خانے کھولے جا رہے ہیں اور ہم افریقی ممالک سے تجارت بڑھا رہے ہیں۔
وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ افغانستان میں امن کے لیے ملٹری حل پر اربوں ڈالر خرچ کیے گئے، عمران خان ہمیشہ کہتے رہے کہ افغانستان میں امن کا حل ملٹری نہیں، عمران خان مسلسل کہتے آئے ہیں کہ طاقت کا راستہ افغانسستان میں امن کے لیے درست نہیں، افغانستان میں امن کے لیے دنیا نے ہمارا مؤقف تسلیم کیا، مائیک پومپیو نے افغانستان میں امن کے لیے پاکستان کے کردار کو تسلیم کیا، افغانستان میں امن کے لیے پاکستان کا بہت بڑا کردار ہے ۔
شاہ محمود کا کہنا تھا کہ کشمیر کا مسئلہ نیا نہیں، اتنا پرانا ہے جتنا پاکستان ہے، عمران خان نے مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کیا، ایک سال میں 3 مرتبہ سلامتی کونسل میں کشمیر کا مسئلہ آیا، او آئی سی نے پاکستان کے نقطہ نظر کو تسلیم کیا، موازنہ کرلیں نوازشریف کی تقریر میں کشمیر کا ذکر کتنا تھا اور عمران خان کی تقریر میں کتنا تھا۔