دو بوتل شراب

فوٹو: فائل 

انصاف کا یہاں کیا حال ہے، اس بارے میں پاکستان کو دیکھنا ہے تو اداکارہ عتیقہ اوڈھو کا کیس ہی دیکھ لیں۔ نو سال قبل اپنے بیگ میں دو بوتل شراب اسلام آباد سے کراچی لے جاتے ہوئے اسلام آباد ائیرپورٹ پر پکڑی گئیں۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ کے سب سے بڑے جج چیف جسٹس آف پاکستان نے واقعے کا سوموٹو نوٹس لیا ۔

کیس میڈیا کی ہیڈلائنز کی بھی زینت بنا رہا یعنی سب کی نظریں اس کیس پر تھیں۔ اس کے باوجود اس کیس پر فیصلہ کرنے میں عدالت کو نو سال سے زیادہ لگے۔ پولیس، استغاثہ، کسٹم و ائیرپورٹ حکام نو سال گزرنے کے باوجود دو بوتل شراب کا پکڑا جانا ثابت نہیں کر سکے اور یوں عتیقہ اوڈھو باعزت بری ہو گئی۔ سیاستدانوں سے جب شراب کی بوتلیں پکڑی جائیں اور چاہے پکڑنے والی پولیس ہو یا ملک کا چیف جسٹس یعنی ریاست کا سب سے بڑا جج تو پھر بھی شراب کو شہد یا زیتون کا تیل بنا کر پیش کر دیا جاتا ہے۔

عتیقہ اوڈھو کے کیس میں تو شراب اور شراب کی دو بوتلیں سرے سے ہی غائب ہو گئیں۔عدالت کو کوئی شہادت نہیں ملی۔ سوچنے کی بات ہے بلکہ افسوس کا مقام یہ ہے کہ اگر عتیقہ اوڈھو کے خلاف یہ کیس جھوٹا بنایا گیا تھا یا شہادتوں کی کمی تھی تو پھر عدالت کو اس نتیجے پر پہنچنے میں نو سال سے زیادہ عرصہ کیوں لگا؟؟

اس دوران کوئی دو سو سے زیادہ دفعہ عدالت لگی کوئی سولہ جج تبدیل ہو گئے لیکن کوئی شہادت نہ ملی اور یوں انصاف ایسا ہوا کہ مذاق ہی بن گیا۔ اتنے سادہ سے کیس میں فیصلہ جو بھی کرنا تھا زیادہ سے زیادہ چار چھ مہینے میں ہو جانا چاہیے تھا ۔ یہ کیسا نظام ہے کہ انصاف اس انداز میں کیا جائے کہ کسی کو انصاف لینے کی خوائش ہی نہ رہے۔

اگر کیس جھوٹا تھا تو دو بوتل شراب کس نے اداکارہ کے بیگ میں رکھی اور اُسے کیوں نہ پکڑا گیا۔ اگر شراب کی بوتلوں کی کہانی ہی جھوٹی تھی تو پھر ائیرپورٹ کے اُن اہلکاروں کو کیوںنہ پکڑا گیا جنہوں نے ایک جھوٹا مقدمہ بنایا۔

کیا اُن اہلکاروں کی اداکارہ سے کوئی دشمنی تھی یا عتیقہ اوڈھو کے خلاف کوئی سازش بنی گئی۔ یا اس کیس میں بھی ملزم اتنا ہوشیار تھا اور اس عدالتی نظام کی خامیوں سے واقف بھی کہ سب کچھ کر کے باعزت بری ہو گیا۔ کچھ ہو بھی ہو یہ ہمارے عدالتی نظام کی وہ خامیاں ہیں جس کی بنا پر کوئی بھی شریف آدمی عدالت میں جانے سے ڈرتا ہے، انصاف کے لیے نسلوںتک کو انتظار کرنا پڑتا ہے جبکہ یہ نظام مجرموں، قانون سے کھلواڑ کرنے والوں کو اس لیے سوٹ کرتا ہے کہ سب کچھ کر کے وہ بغیر سزا کے بچ نکلتے ہیں۔

وکیلوں کے پاس اس نظام میں اتنے حربے ہیں کہ جتنا چاہے مقدمہ کو لٹکا دیں۔ جس کے پاس پیسہ ہے اُس کے لیے اپنی مرضی کا انصاف لینے کی اس نظام میں بہت آسانیاں ہیں۔ مثلاً اگر کوئی آپ کے مکان پر قبضہ کر لے، یہ نظام قبضہ کرنے والوں کے لیے موافق ہے جبکہ مظلوم پولیس کچہری کے چکر لگا لگا کر مایوس ہو جاتا ہے۔

قبضہ مافیا کا سب سے بڑا ہتھیار یہ نظام ہی ہے کیوں کہ کسی کے بھی پلاٹ یا مکان پر قبضہ کرنے پر کسی بھی فریق کی طرف سے معاملہ عدالت میں چلا جاتاہے اور یوں مقدمہ برسوں بلکہ دہائیوں تک چلتا ہے اور یہ وہ صورت ہے جو ظالم کو سوٹ کرتی ہے اور مظلوم کو بے بس بنا دیتی ہے۔

عدالتوں اور جج حضرات کی طرف سے اکثر دوسرے محکموں کے متعلق بہت سخت باتیں سننے کو ملتی ہیں۔ عدالتیں پولیس پر برستی ہیں، حکومت، نیب، سول وفوجی محکموں کی کارکردگی پر تنقید کرتی ہیں، نظام کی خرابیوں کو اجاگر کرتی ہیں۔

کتنا ہی اچھا ہو کہ ہماری عدالتیں اس نظام عدل کی خامیوں کو بھی دیکھیں، عوام کی اس نظام سے مایوسی کا بھی احساس کریں، ظالم کا ہاتھ روکیں، مظلوم کی دادرسی کریں، فیصلے برسوں، دہائیوں میں نہیں بلکہ جلد انصاف کے خواب کو شرمندہ تعبیر کریں۔

یہ وہ کام ہے جو ہماری عدالتوں اور ججوں کو سب سے پہلے کرنا چاہیے۔ اگر اس ملک میں عدالتوں سے انصاف مل جائے تو سمجھیں کوئی مسئلہ باقی نہ رہا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔