24 اگست ، 2020
کراچی کے علاقے ڈیفنس میں گذشتہ دنوں مبینہ خود کشی کرنے والی ڈاکٹر ماہا کیس کی تحقیقات جاری ہیں۔
ڈاکٹر ماہا علی کے قریبی دوست جنید نے پولیس کے سامنے پیش ہو کر بیان دیا ہے کہ ماہا اور وہ شادی کرنے والے تھے، دونوں میں محبت تھی، جھگڑے بھی ہوتے تھے ہاتھا پائی ہوتی تھی اور ایک لڑائی میں ماہا کا دانت ٹوٹا اور خود جنید کی ناک فریکچر ہوئی۔
جنید کا کہنا ہے کہ ماہا کے مانگنے پر بھی اسے پستول اس لیے نہ دیا کہ کہیں وہ اسے قتل نہ کردے، مبینہ خود کشی والے دن بھی ماہا کو فون کیا بعد میں پتہ چلا کہ مصروفیت کا بہانہ بنا کر وہ اس دن کسی اور کے ساتھ تھی۔
پولیس کو ماہا علی کے اس دوست کی تلاش ہے جس نے مبینہ خودکشی والے دن ماہا علی کو ہاسپٹل سے پِک کیاتھا۔
پولیس تفتیش کے مطابق مبینہ خودکشی سے پہلے ماہا ڈیوٹی ختم کر کے براہ راست گھر نہیں گئی تھی اور اپنے ایک دوست کے گھر چار گھنٹے گزارے تھے۔
پولیس کے مطابق مبینہ خوکشی میں استمال ہوالائسنس یافتہ پستول سعدنصیر کا تھا، جو اس نے ماہا کے دوست تابش کو دیا تھا۔
دوسری جانب پولیس نے ڈاکٹر ماہا کو اسلحہ دینے والے دونوں افراد کو جوڈیشل مجسٹریٹ جنوبی کے سامنے پیش کردیا جہاں عدالت نے پولیس کو دونوں ملزمان کا دو روزکا جسمانی ریمانڈ دے دیا۔
تفتیشی افسر کے مطابق ڈاکٹر ماہا کی مبینہ خودکشی میں استعمال ہونے والا اسلحہ سعد کے نام پر تھا اور تابش نے ڈاکٹر ماہا کو اسلحہ اور گولیاں فراہم کیں، ملزمان کے خلاف سندھ آرمز ایکٹ اور دیگر دفعات کے تحت مقدمہ درج ہے۔
خیال رہے کہ گزشتہ دنوں ڈیفنس میں خاتون ڈاکٹر ماہا علی نے گولی مار کر خودکشی کرلی تھی۔
ڈاکٹر ماہا کے قریبی دوست جنید نے پولیس کو دیے گئے بیان میں بتایا تھا کہ اس کے مرحومہ سے گزشتہ 4 سال سے تعلقات تھے اور دونوں جلد ہی شادی کرنے والے تھے۔
خاتون ڈاکٹر کے دوست کا کہنا تھا کہ ماہا کا اکثر اپنے والدین سے جھگڑا رہتا تھا، ماہا گھریلو پریشانیوں کی وجہ سے ڈپریشن میں رہا کرتی تھی۔
پولیس نے اب تک کی تحقیقات کے نتیجے میں ڈاکٹر ماہا علی کی موت کو خودکشی قرار دیا ہے اور پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر ماہا علی نے اپنے دوست جنید کے تشدد سے تنگ آکر خود کو مارا۔