03 ستمبر ، 2020
حالیہ بارشوں نے کراچی میں حکومت، سیاست سمیت ترقیاتی اور انتظامی معاملات کی قلعی کھول دی ہے۔ ایسے وقت میں جب بلدیاتی نظام اپنی مدت پوری کر چکا ہے تو اچانک وفاقی حکومت اور بااختیار حلقوں کی کراچی سے ہمدردی جاگ اٹھی ہے۔
صوبے کی بیورو کریسی اور انتظامی افسران نے چار سالوں سے بلدیاتی اداروں میں تعیناتی کے دوران کیا فرائِض انجام دیے اس کا جائزہ لیا جائے تو مجرمانہ غفلت کا لفظ کچھ تقویت پائے گا۔ جس طرح سندھ کے سب سے بڑےشہر اور معاشی حب کراچی کے مسائل اور ترقیاتی رفتار کا اثر براہ راست ملک کے معاشی اور سیاسی حالات پر اثر انداز ہوتا ہے۔
کراچی میں حالیہ بارشوں نے جو تباہی پھیلائی اس نے ملک بھر کی توجہ حاصل کرلی ۔ شہر کی موجودہ صورت حال نے اس بات کو واضح کردیا کہ کراچی میں گزشتہ دس سالوں سے انفراسٹرکچر کی بہتری پانی، سیوریج اور ٹرانسپورٹ کے منصوبوں پر ہونے والا کام ناکافی ہے۔
شہر کی آبادی اور رقبہ دیکھ کر یہاں انفرااسٹرکچر کو بہتر کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر ترقیاتی کاموں کی ضرورت ہے۔ سپریم کورٹ میں کراچی کے مختلف معاملات پر ہونے والی سماعتوں کے دوران پانی، سیوریج، بجلی کی فراہمی، روڈ انفرااسٹرکچر، صفائی اور ٹرانسپورٹ کے نظام اور ترقیاتی کاموں پر عدم اعتماد کا اظہار نظر آتا رہا ہے۔
بلدیاتی نظام کے تحت جو کام مقامی حکومت کی ذمہ داری بنتا تھا اس کو قانون میں ترمیم کرکے صوبائی حکومت کو دے دیا گیا۔ لوکل باڈیز بھی اپنے اختیار کے تحت کام انجام دینے میں مجرمانہ غفلت کا شکار نظر آئیں۔ فنڈز جاری ہوئے لیکن کہاں استعمال ہوئے پتہ نہ چل سکا۔ فنڈز کی کمی اور اختیارات نہ ہونے کی بات بھی بارہا دہرائی جاتی رہی لیکن کسی کے کان پر جوں نہ رینگی۔
حکومت سندھ کی جانب سے سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ قائم کرکے اسے شہر کی صفائی کی ذمہ داری سونپی لیکن یہ ادارہ ابتداء سے ہی اپنی ذمہ داری انجام دینے میں ناکام رہا۔ صوبائی اور بلدیاتی اداروں میں چپقلش نے عوام کو سخت اذیت میں مبتلا کردیا۔ پیپلزپارٹی صوبے میں طویل عرصے سے اقتدار میں رہنے والی جماعت ہے لیکن کراچی کی ترقی میں نہ پیپلز پارٹی، نہ ہی یہاں سے منتخب جماعتیں متحدہ قومی موومنٹ اور پاکستان تحریک انصاف اپنا کردار ادا کرسکیں۔
گزشتہ چار سال بلدیاتی نظام مفلوج رہا اور سیاسی جماعتیں اختلاف برائے اختلاف کا شکار رہیں۔ اس تمام عرصے میں لوگ بجلی کے بڑے بحران، پینے کے پانی کی شدید قلت ، سیوریج کے نظام کی تباہی کے باعث گندگی اور صفائی نہ ہونے کے باعث کچروں کے ڈھیر سے نبرد آزما بھی رہے اور ماحول کے خرا ب ہونے سے صحت عامہ کے سخت مسائل کا شکار رہے۔ ایسا لگتا رہا کہ شہر کراچی لاوارث ہے اسے کوئی اپنانے کو تیار نہیں سب اس کو نوچ کر کھانے میں مصروف ہیں۔
ٹیکس کی بھرمار، بجلی ، گیس ، پانی کے بلوں نے عوام کو رلادیا۔ سہولتیں نہ دے کر زیادہ قیمت وصول کرنا سرکاری اور نجی اداروں کا معمول بنتا جارہا ہے۔ اب ایڈمنسٹریٹر لگا کر اس کو طویل عرصے تک برقرار رکھنے کی بات بھی کی جارہی ہے۔ سیاسی جماعتیں اس میں بھی اپنا حصہ تلاش کرنے میں مصروف ہیں۔ اس معاملے پر بھی سیاست جاری ہے لیکن کیا پچھلے دس سالوں میں صوبائی اور کراچی کی مقامی حکومت اور بلدیاتی اداروں کی جانب سے شہر کے لیے خرچ ہونے والے اخراجات کا جائزہ نہیں لیا جانا چاہیے۔
فارنزک آڈٹ کرایا جانا چاہیے کہ صوبائی حکومت نے کتنے پیسے جاری کیے اور کتنے پیسے خرچ کیے۔ لوکل باڈیز کے اخراجات میں دکھائی جانے والی رقم کہاں خرچ ہوئی۔ صوبائی حکومت نے فنڈز نہیں جاری کےاس کی وجوہات سامنے آنی چاہییں۔ پورے صوبے میں بلدیات، صحت ، ٹرانسپورٹ اور تعلیم پر ہونے والے اخراجات کا یقیناً منصفانہ آڈٹ ضروری ہے کیونکہ یہ عوام کے دیے ہوئے ٹیکس کا پیسہ ہے جسے کراچی کے عام شہری ، صنعتکار، تاجر، کاروباری افراداور لاکھوں کی تعداد میں ملازمین ایمانداری سے اب تک ادا کررہے ہیں ۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔