23 ستمبر ، 2020
’’خدارا ایسے سوالات نہ کریں جن کے جوابات دینے میرے لئے ممکن نہیں۔ میرے ساتھ زیادتی ہوئی ہے اور آپ پوچھ رہے ہیں کیسے ہوئی‘‘۔ 20/25سال گزر جانے کے بعد مجھے آج بھی یاد ہے اُس مظلوم عورت کا یہ جملہ۔ یہ اُن دنوں کی بات ہے جب میں کورٹ رپورٹنگ کیا کرتا تھا۔وکیل نے پھر اپنا سوال دہرایا اور اصرار کیا کہ سوالات کا جواب دیں۔
گینگ ریپ کی متاثرہ خاتون نے کہا، ’’آپ مجھے بھری عدالت میں زیادتی کا نشانہ بنا رہے ہیں‘‘۔ میں اس وقت زیادہ حیران ہوا جب جج نے عورت کی فریاد سننے کے بجائے اس سے کہا، ’’بی بی سوالات کے جواب دیں‘‘۔ اس کو بھری عدالت میں سوالات کے ذریعہ بےلباس کیا جارہا تھا اور وہاں موجود لوگوں کے چہرے کے تاثرات بتا رہے تھے کہ وہ اس درد ناک منظر کے مزے لے رہے تھے۔
پچھلے دنوں وزیراعظم عمران خان نے قومی اسمبلی میں خطاب کے دوران موٹروے پر پیش آنے والے واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے اس طرح کے واقعات میں جب مظلومہ کے ساتھ جرح کا ذکر کیا تو مجھے برسوں پرانا یہ واقعہ یاد آگیا۔ امید ہے اس سلسلے میں بہتر قانون سازی ہوگی۔ آج موٹروے پر زیادتی کا نشانہ بننے والی خاتون کے پیشِ نظر یہ اہم نہیں کہ ان مجرموں کے ساتھ کیا ہوگا مگر شاید اس کے سامنے سب سے اہم سوال یہ ہے کہ یہ ’’سماج‘‘ اسے قبول بھی کرے گا یا نہیں۔
اس کا شوہر، گھر اور سسرال والے اس کے ساتھ کھڑے ہوں گے؟اگر وہ بیان ریکارڈ کرانے یا FIRدرج کرانے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہے تو بات سمجھ میں آتی ہے۔ اس کے سامنے اس کا اور اس کے بچوں کا مستقبل ہے۔ عین ممکن ہے کہ گرفتار ملزمان کو سزا بھی ہو جائے اور پھانسی بھی مگر ابھی کئی مرحلے باقی ہیں اور ہمیں کریڈٹ لینے سے ہی فرصت نہیں۔
عورت کے ساتھ ایک بار زیادتی نہیں ہوتی بلکہ بار بار ہوتی ہے، تھانہ میں FIRریکارڈ کرانے سے لے کر ملزمان کی شناخت اور وکیلوں کی جرح تک۔ رہی بات سماج کی تو یہ معاشرہ ملزمان کی سزا کی حد تک تو شاید ساتھ کھڑا ہو جائے مگر یہ کوئی مختاراں مائی یا اس جیسی اجتماعی زیادتی کی شکار خواتین سے پوچھے کہ انہیں انصاف دلانے والے لوگ معاشرتی طور پر کتنا ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ عورت کے لئے تو اپنی شکایت لے کر تھانہ جانا ہی ایک کٹھن مرحلہ ہوتا ہے۔ تھانہ دار ایسے سوالات کرنا شروع کرتا ہے جیسے وہ کوئی ملزم ہو۔ ایسے میں ان باہمت عورتوں کو سلام جو ہمت کرکے تھانہ کچہری کا سامنا کرتی ہیں۔
سزائیں اور سخت سے سخت سزائیں ضرور دیں وہ بھی برسوں میں نہیں بلکہ تین ماہ کے اندر اندر۔ اس جرم کو انسدادِ دہشت گردی ایکٹ میں بھی شامل کرلیں مگر جب تک سماج کے رویہ میں عورت کے حوالے سے خاص طور پر ایسی متاثرہ خواتین کے حوالے سے تبدیلی نہیں آئے گی۔
زیادتی کا شکار عورت روز جئے گی اور روز مرے گی۔ ہمارا ’’نظامِ عدل‘‘ اور کریمنل جسٹس سسٹم مدعی کو ملزم اور ملزم کو مجرم بنا دیتا ہے اور اصل مجرم بچ نکلتے ہیں۔ نظام کو بہتر بنائے بغیر جرم ختم نہیں ہو سکتے کیونکہ پولیس کی تفتیش سے لے کر پولیس سرجن تک اور پوسٹ مارٹم سے لے کر DNAتک مقدمہ جب عدالت تک پہنچتا ہے تو اس کی شکل ہی کچھ اور ہوتی ہے۔ ایسے میں آپ سخت سے سخت قوانین بنائیں اس سے صرف تھانہ دار کا ’’ریٹ بڑھے گا‘‘۔ اگر وہ قتل کے مقدمے کو کمزور کرنے کے 10لاکھ لیتا ہے تو سرعام پھانسی کے ملزم سے 25لاکھ لے لے گا۔
اب ذرا آجائیں ’’سماج‘‘ پر۔ ہمارا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم دلیل کے بجائے جذبات اور فوراً بات کو مذہبی اور سیکولر میں تقسیم کردیتے ہیں۔ ذرا اپنے اپنے دلوں پر ہاتھ رکھ کر بتائیں۔ ہم میں سے کتنے لوگ بیٹیوں اور کتنے بیٹوں کی خواہش کرتے ہیں۔ اللہ تمہیں چاند سا بیٹا دے، آپ کتنی بار سنتے ہیں اور اللہ تمہیں بیٹی کی نعمت سے نوازے کتنی بار سنتے ہیں۔
کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ایک بیٹے کی خواہش میں ہم طلاق تک دے دیتے ہیں اگر لڑکی پر لڑکی پیدا ہورہی ہو۔ ایسے میں عورت ہی زیادتی کا شکار ہوتی ہے اور معاشرہ میں ساری زندگی ایک خوف میں گزارتی ہے۔ جیسے کہ وہی قصور وار ہو۔ ایسے میں اگر اس کو ملزمان کو سزا دلوانی ہوتو پولیس سے لے کر وکیلوں کے سوالات کی صورت میں بھری عدالت میں بار بار بےعزت ہونا پڑتا ہے۔ بہتر ہوکہ ایسے مقدمات کی سماعت ’’بند کمرے‘‘ میں ہو۔
مجرموں کو سخت سے سخت سزائیں دیں مگر جنسی جرائم عورتوں، بچوں اور بچیوں کے ساتھ ہونے والے واقعات کے اسباب بھی تلاش کریں ورنہ جرائم اپنی جگہ موجود رہیں گے۔ ہمارے کچھ دوست مثال دیتے ہیں جنرل ضیاء الحق کے دور کی کہ کم سن پپو کے ساتھ درندگی کرنے والوں کو سرعام پھانسی کے بعد ریپ کے واقعات نہیں ہوئے۔
کم سن ترنم عزیز اور نواب پور میں 7عورتوں کو برہنہ کرکے پورے علاقے میں گھمانے جیسے کئی واقعات سامنے آئے۔ اور جب یہ ہورہا تھا تو لوگ تماشہ دیکھ رہے تھے۔ وہ عورتیں پھر اس علاقے میں نہ رہ سکیں۔ پھانسی بھی دیں اور لٹکائیں بھی مگر جب تک آپ نظام عدل قائم نہیں کریں گے، سماج میں لڑکی پیدا ہونے پر بھی وہی شادیانے بجائے جائیں جو لڑکا پیدا ہونے پر بجائے جاتے ہیں، جب تک معاشرہ متاثرہ عورت کو قبول نہیں کرے گا، تھانہ داری نظام بہتر نہیں ہوگا، سماجی رویوں میں تبدیلی نہیں آ سکتی۔ قانون ایسا بنائیں کہ پولیس کے ’’ریٹ‘‘ نہ بڑھیں بلکہ معیار بہتر ہو۔ انصاف کی کرسی پر بیٹھا منصف ایسے درندوں کو ضمانت نہ دے۔
آج موٹروے پر ہونے والی زیادتی کا شکار عورت کے سامنے اہم سوال یہ ہے کہ اس سانحہ کے بعد وہ دوبارہ معمول کی زندگی گزار پائے گی۔ میڈیا نے تاریخی کردار ادا کیا کہ اس کی شناخت ظاہر نہ کی۔ بس یہی احتیاط مقدمے کے دوران بھی ضروری ہے۔ ظالم کو بےنقاب کریں مظلوم کو نہیں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔