کھیل
Time 18 اکتوبر ، 2020

ورلڈ کپ 2011 کے سیمی فائنل میں بھارت سے شکست کا دکھ ہمیشہ رہےگا: عمرگل

کیریئر کا سب سے یادگار لمحہ تو وہ ہی تھا جب پہلی بار پاکستان کی نمائندگی کی تھی،ر عمرگل،فوٹو:جیو نیوز

پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق فاسٹ بولر عمرگل کاکہنا ہےکہ 2011کے ورلڈکپ میں بھارت کے خلاف موہالی میں سیمی فائنل کی شکست وہ فراموش نہیں کرپائے، اس شکست کا دکھ آج تک ہے اور ہمیشہ رہےگا۔

اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد جیو نیوزکو خصوصی انٹرویو میں عمرگل نے اپنےکیریئرکے اتار چڑھاؤ، یادگارلمحات اور مستقبل کے منصوبوں پر کھل کر بات کی۔

عمر گل نے کہاکہ جب سے کرکٹ شروع کی ایک ہی ہدف تھا کہ پاکستان کے لیے کھیلنا ہے ،جو سوچا تھا اللہ نے اس سے زیادہ ہی دیا،مشکلات رہیں، انجریز کا شکار بھی رہا لیکن ہمیشہ اچھاکم بیک کیااور پرفارم کیاہے۔

ایک سوال پر عمر گل نےکہا کے ان  کے کیریئر کا سب سے یادگار لمحہ تو وہ ہی تھا جب پہلی بار پاکستان کی نمائندگی کی تھی اور اسٹار کو چوما تھا، وہ لمحہ انہیں آج بھی یاد ہے اور یاد گار کارکردگی میں بھارت کے خلاف لاہور ٹیسٹ میں 5 وکٹیں لینا اور پھر ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں نیوزی لینڈ کے خلاف پرفارمنس شامل ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جہاں ان کی خوشگوار یادیں بھارت کے خلاف میچ سے وابستہ ہیں، وہیں مایوس کن لمحات بھی بھارت کے خلاف میچز میں ہی ملے۔

 عمر گل کہتے ہیں کہ انہیں 2011 ورلڈ کپ کا سیمی فائنل ہارنے کا افسوس ہمیشہ رہے گا، دکھ ہے کہ وہ ٹورنامنٹ میں بھرپور فارم میں تھے لیکن اس میچ میں وہ اچھی بولنگ نہیں کراسکے، پاکستان وہ میچ جیت سکتا تھا اور اگر جیت جاتا تو ورلڈ کپ بھی پاکستان کا ہونا تھا۔

ایک سوال پر عمر گل نے کہا کہ سچن ٹنڈولکر کے ایل بی ڈبلیو پر ڈی آر ایس نے جو فیصلہ دیا اس پر سب ہی کو حیرت تھی،اگر فیلڈ امپائر کا فیصلہ تبدیل نہیں ہوتا اور سچن کی وکٹ جلد مل جاتی تو میچ کا نتیجہ مختلف ہوسکتا تھا کیوں کہ سچن کی بیٹنگ کی وجہ سے ہی بھارت 260 تک اسکور لے جانے میں کامیاب ہوا تھا۔

عمر گل اپنے کیریئر میں خطرناک یارکرز کے لیے مشہور رہے لیکن پھر بھی وہ جارح مزاج بولر کے طور پر نہیں جانے گئے،اس پر ان کا کہنا تھا کہ ان کا ٹارگٹ کبھی بھی جارح مزاج ہوکر بیٹسمین کا سر پھوڑنا نہیں ہوتا تھا،وہ ہمیشہ سے دھیمے مزاج کے رہے اور ہمیشہ کام سے کام رکھا، ٹورز پر بھی صرف کرکٹ اور ٹریننگ پر فوکس کیا ، کبھی سوشلائز نہیں کیا اور یہ ہی وجہ ہے کہ تنازعات سے بھی بچے رہے۔

130ون ڈے، 47 ٹیسٹ اور 60 ٹی ٹوئنٹی میچز میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے فاسٹ بولر نے زور دیا کہ سلیکشن کے لیے فرسٹ کلاس کی پرفارمنس کو ترجیح دینا ضروری ہے کیوں کہ آج کل ویسے ہی پلیئرز ریڈ بال کرکٹ کو چھوڑ کر ٹی ٹوئنٹی لیگز کو ترجیح دے رہے کیوں کہ وہاں 4 اوورز کرواکے اچھی خاصی رقم بن جاتی ہے، بہت سے کرکٹرز کی ٹیسٹ میں دلچسپی نہیں رہی کیوں کہ وہ نیشنل ٹی 20 میں پرفارم کرنے اور پاکستان سپر لیگ میں منتخب ہونے کو ہی ہدف بنارہے ہیں، اس لیے سلیکشن کا معیار فرسٹ کلاس کرکٹ ہونا چاہیے، ناکہ پی ایس ایل یا ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹ۔

انہوں نے کہا کہ نئے فاسٹ بولرز نسیم شاہ، شاہین شاہ آفریدی،موسیٰ، حارث رؤف یا حسنین ہوں یہ سب ٹیم کا مستقبل ہیں لیکن کامیاب وہی ہوگا جو سیکھنے کا عمل جاری رکھےگا اور جلد از جلد چیزیں سیکھنے کی کوشش کرےگا، شاہین  آفریدی ایسا پلیئر ہے جو چیزیں جلد سیکھنے کی کوشش کرتا ہے جبکہ  نسیم شاہ کو اپنی فٹنس پر کام کرنا ہوگا اگر وہ ٹیسٹ کرکٹ میں لمبا کھیلنا چاہتا ہے کیوں کہ انہوں نے ابھی فرسٹ کلاس اتنی نہیں کھیلی اور بہت جلد ٹیسٹ کرکٹ میں آگئے ہیں۔

ایک سوال پر عمرگل نےکہاکہ وہ کوشش کریں گےکہ آئندہ بھی کرکٹ سے وابستہ رہیں کیوں کہ وہ جو کچھ ہیں پاکستان کرکٹ کی وجہ سے ہیں ، مستقبل میں کوشش ہوگی کہ پاکستان کو کچھ دیں،کم از کم ایسے ایک دو پلیئرز ضروری دیں جو پاکستان کرکٹ کو کچھ دے سکیں۔

مزید خبریں :