13 ستمبر ، 2012
کراچی … اداکار لہری فلمی صنعت کے بزرگ ترین فن کار تھے، انہیں مرحوم کامیڈی اداکار یعقوب کا جانشین قرار دیا جاتا تھا اور انہیں یعقوب کے مخصوص اور منفرد اسلوب کا امین بھی کہا جاسکتا ہے۔ خوبصورت، برجستہ اور چبھتے ہوئے جملوں سے طنز و مزاح پیدا کرنا اور پھر انتہائی کامیابی سے ادا کرنا اداکار لہری کا حسن کمال و فن تھا۔ لہری ہجرت کرکے پاکستان تشریف لائے تو غم روزگار میں بڑی جان فشانی اور محنت سے شب و روز بسر کیے، شارٹ ہینڈ سیکھی اور کئی فرمز و سرکاری محکمے میں اسٹینو ٹائپسٹ کی ملازمت اختیار کی، جبکہ شام کے فاضل اوقات میں کراچی کے علاقے صدر میں ہوزری کی اشیاء بھی بیچیں، ان کا اصل نام سفیر اللہ تھا۔ 1955ء میں لچھو سیٹھ (شیخ لطیف فلم ایکسچینج والے) نے ایک فلم انوکھی بنانے کا اعلان کیا جس میں ہیروئن کا کردار ادا کرنے کیلئے ان کی بھانجی شیلا رمانی بھارت سے پاکستان تشریف لائیں اس طرح سفیر اللہ کو اس فلم میں اپنی خداد داد صلاحیتوں کو پردہٴ سیمیں پر پیش کرنے کا موقع ملا اور ان کی یہ پہلی فلم 1956ء کے اوائل میں نمائش کیلئے پیش کردی گئی۔ لہری نے اپنے منفرد اسلوب سے بہت جلد ترقی کی منازل طے کیں، دیکھتے ہی دیکھتے وہ شہرت اور مقبولیت کے اس مقام پر پہنچ گئے جس کا انہوں نے چند سال قبل تصور بھی نہ کیا تھا۔ منور ظریف، نذر اور آصف جاہ کے بعد لہری کیلئے فلم انڈسٹری میں اپنے لیے جگہ بنانا کسی معرکے سے کم نہ تھا۔ لہری نے کم و بیش سوا دو سو فلموں میں کام کیا، جن میں انسان بدلتا ہے، رات کے راہی، فیصلہ، جوکر، کون کسی کا، آگ، توبہ، جیسے جانتے نہیں، دوسری ماں، اِک نگینہ، اِک مسافراِک حسینہ، چھوٹی امی، تم ملے پیار ملا، بہادر، نوکری، بہاریں پھر بھی آئیں گی، افشاں، رم جھم، بالم، جلتے سورج کے نیچے، پھول میرے گلشن کا، انجان، پرنس، ضمیر، آنچ، صائمہ، دل لگی، آگ کا دریا، ہمراز، دیور بھابھی، داغ، نئی لیلیٰ نیا مجنوں، بندھن، تہذیب، دلہن رانی، زبیدہ، زنجیر، نیا انداز، موم کی گڑیا، جلے نہ کیوں پروانہ، گھرہستی، رسوائی، بدل گیا انسان، اپنا پرایا، دو باغی، سوسائٹی، انہونی، ننھا فرشتہ، ایثار، دامن، آنچل، پیغام، کنیز ان کی معروف فلموں میں شامل ہوتی ہیں۔ لہری پر سب سے پہلے 1985ء میں بیرون ملک فلم کی شوٹنگ کے دوران فالج کا اٹیک ہوا، پھر قوت بینائی میں کمی آنے لگی، اس طرح وہ فلمی دنیا سے آہستہ آہستہ کنارہ کش ہوتے چلے گئے۔ لہری پاکستان کے وہ پہلے کامیڈین ہیں جنہوں نے فلمی دنیا کے سب سے بڑے ایوارڈ ’نگار‘ سب سے زیادہ حاصل کیے، ان کا آخری ایوارڈ بھی نگار ایوارڈ تھا جو 1993ء میں ان کی فلمی خدمات کے اعتراف کے طور پر دیا گیا۔ اداکار لہری پاکستان فلم انڈسٹری کے وہ واحد مزاحیہ فنکار تھے جن کے زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے لاکھوں پرستار موجود تھے، ہیں اور رہیں گے۔ ان کی زندگی کے آخری ایام میں اداکار معین اختر نے ان کی بڑی دیکھ بھال کی۔ اداکار لہری کا آخری ایام میں یہ کہنا تھا کہ مجھے اللہ کے بعد اس دنیا میں زندگی کے اس کٹھن سفر میں اداکار معین اختر، سندھ کے گورنر ڈاکٹر عشرت العباد نے ناصرف قدم قدم پر میرا خیال رکھا بلکہ ہر لمحہ خبر گیری بھی کی۔