Time 23 نومبر ، 2020
پاکستان

نومسلم لڑکی آرزو کا ایک بار پھر والدین کے ساتھ جانے سے انکار

نومسلم لڑکی آرزو فاطمہ نے ایک بار پھر والدین کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا۔

آرزو فاطمہ کی جانب سے دائر درخواست پر سماعت سندھ ہائی کورٹ میں ہوئی۔ اس موقع پر وکیل آرزو فاطمہ نے کہا کہ میری موکلہ درخواست دائر کرنا چاہتی ہیں کہ دارالامان انتظامیہ نے انہیں ملاقات کی اجازت نہیں دی۔

پراسیکیورٹر نے کہا کہ یہ اغواء کا کیس نہیں، کم عمری میں شادی کا کیس ہے، نکاح کرانے والے قاضی نے اور دیگر نامزد ملزمان نے ضمانت حاصل کر لی ہے جب کہ دو ملزمان مفرور ہیں۔

عدالت نے استفسار کیا کہ آپ نے نامزد ملزمان کی گرفتار کرنے کے لیے کیا کوشش کی؟ آپ کی ذمہ داری ہے کہ مفرور ملزمان کو گرفتار کریں۔

آرزو کے وکیل نے کہا کہ مقدمے کا چالان ماتحت عدالت میں پیش کر دیا گیا ہے جس پر جسٹس کے کے آغا نے کہا کہ آپ خاموش رہیں، اس کیس میں آپ وکیل نہیں ہیں۔

وکیل نے کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے کہ اسلامی قوانین کے تحت فیصلہ ہونا چاہیے، جس پر جسٹس کے کے آغا نے ریمارکس دیے کہ آپ توہین عدالت کر رہے ہیں، مزید بولنے کی کوشش کی تو آپ کے خلاف کارروائی ہو گی۔

عدالت نے آرزو فاطمہ کے وکیل پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ ہمیں ہدایت مت دیں، ہمیں معلوم ہے کیسے کیس چلے گا۔

عدالت نے آرزو فاطمہ سے استفسار کیا کہ آپ والدین کے ساتھ جانا چاہتی ہیں؟ جس پر آرزو نے ایک مرتبہ پھر والدین کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا۔

وکیل آرزو فاطمہ نے کہا کہ کیس کا فیصلہ اسلامی قوانین کے تحت کیا جائے، جس پر عدالت نے کہا کہ ہم نے فیصلہ کر دیا ہے، آپ چاہیں تو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیں۔

عدالت نے آرزو کی جانب سے دائر درخواست نمٹاتے ہوئے پولیس کو شفاف تفتیش کرکے ماتحت عدالت میں رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا اور نو مسلم لڑکی کو دوبارہ دارالامان منتقل کرنے کا بھی کہا۔ 

سندھ ہائی کورٹ نے آرزو کی تعلیم اور دیگر سہولیات کا انتظام کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ محکمہ داخلہ آرزو کی کونسلنگ کا بھی انتظام کرے، محکمہ داخلہ کی جانب سے روزانہ کوئی نمائندہ ایک گھنٹہ آرزو سے ملاقات کرے۔

آرزو فاطمہ کیس کا تحریری فیصلہ

سندھ ہائی کورٹ کے تحریری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ آرزو کے بیان کے بعد مقدمے میں اغواء کی دفعات شامل نہ کی جائیں، درخواست گزار نے والدین کے پاس جانے سے انکار کیا ہے۔

عدالت کے تحریری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ تمام شواہد کے مطابق آرزو کی عمر 13 سے 14 سال ہے، آرزو کم عمری کے باعث علی اظہر کے ساتھ نہیں جا سکتی، اسے فی الحال دارالامان میں رکھا جائے۔

سندھ ہائی کورٹ نے حکم دیا کہ کم عمری کے باعث محکمہ سوشل ویلفیئر آرزو کی دیکھ بھال کا مکمل خیال رکھے، محکمہ سوشل ویلفیئر کی خاتون ملازمہ کو آرزو کی دیکھ بھال پر تعینات کیا جائے، محکمہ سوشل ویلفیئر کی خاتون ہفتے میں ایک بار آرزو سے ملاقات کرے۔

تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آرزو کو علی اظہر اور اس کے رشتے داروں سے ملاقات کی اجازت نہیں ہو گی، اس کے علاوہ لڑکی کو اجازت ہو گی کہ اپنی مرضی کے مطابق جس سے چاہے ملاقات کر سکتی ہے۔

درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ وفاقی قانون میں شادی کی عمر 18 سال مقرر نہیں کی گئی ہے، درخواست گزار کے وکیل کے مطابق صوبائی قانون پر وفاقی قانون کو فوقیت حاصل ہے، 18 ویں ترمیم کے بعد صورتحال بدل چکی ہے۔

عدالت نے کہا کہ ہماری نظر میں اس معاملے کو کسی مناسب فورم پر اٹھایا جا سکتا ہے، ایسے فورم پر جہاں اس مسئلے کو حل کیا جا سکے، اس کے لیے تمام متعلقہ قوانین کو مد نظر رکھنا ہو گا۔

مزید خبریں :