Time 07 دسمبر ، 2020
بلاگ

اب لوگ میرا فون بھی نہیں سنتے!

مجھے اچھی طرح یاد، یہ تین ماہ پہلے اگست کے آخری ویک اینڈ کی شام، میں اسلام آباد کلب پارکنگ میں گاڑی کھڑی کرکے ڈنر ہال کی طرف جا رہا تھا، اچانک کسی نے پیچھے سے آواز دی، مڑ کر دیکھا، ایک پرانا دوست مسکراتا ہوا میری طرف آرہا تھا، میں رُک گیا، دوست آیا، کورونا ایس او پیز کا سوا ستیاناس کرتے ہوئے اُس نے زبردستی جپھی ڈالی، بڑی مشکل سے اُسے خود سے علیحدہ کیا، ہم ایک عرصے بعد مل رہے تھے، علیک سلیک۔

حال احوال، ایک دوسرے کو نہ ملنے کے گلے شکوے، جب اِس قسم کی باتیں ہورہی تھیں تو اچانک میری نظر دوست کے پیچھے تھری پیس سوٹ پہنے چپ چاپ کھڑے ایک شخص پر پڑی، مجھے اُس شخص کا چہر ہ جانا پہچانا سا لگا، میں نے دوست کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا، دوست بولا ’’سوری میں بھول گیا، یہ میرا بچپن کا دوست بلکہ کلاس فیلو ارشد ملک ہے‘‘، یہ کہہ کر دوست نے لمحہ بھر کیلئے مجھے دیکھا اور پھر بولا ’’نہیں پہچانا، یہ جج ارشد ملک ہیں، وہی احتساب عدالت والے‘‘۔

اِس وقت تک میں بھی پہچان چکا تھا، میں نے کہا ’’جی بالکل، میں پہچان گیا، تبھی میں سوچ رہا تھا، یہ چہرہ مجھے جانا پہچانا کیوں لگ رہا‘‘، یہ سن کر ارشد ملک نے مسکرانے کی کوشش کی مگر ناکام رہے، میں نے اپنے دوست سے کہا کہ ملک صاحب پریشان لگ رہے، خیر تو ہے۔

میرا دوست بولا ’’تمہیں پتا جو ہو چکا، جو کچھ یہ بھگت چکے، گو کہ اُنہیں بہت سمجھا رہا کہ یہ وقت گزر جائے گا، ہمت نہیں ہارنی، میرے کہنے پر ہی اُنہوں نے اسلام آباد کلب آنا، سوئمنگ کرنا شروع کیا ہے مگر ابھی تک یہ مکمل ڈپریشن سے نہیں نکلے‘‘۔یہ سن کر میں نے ارشد ملک کو پہلی بار مخاطب کرتے ہوئے کہا ’’ملک صاحب جو ہونا تھا، ہو گیا، اب ہمت کریں، اللہ سے مدد مانگیں، روزانہ صدقہ دیں، مشکل لمحوں میں بندہ جب اللہ تعالیٰ سے رجوع کرتا ہے، اُس کے سامنے گڑگڑاتا ہے، اللہ مشکلیں آسان فرما دیتا ہے‘‘۔

ارشد ملک کہنے لگا ’’بس اسی اللہ کا سہارا ہے، آپ نے میرے لئے ضرور دعا کرنی ہے‘‘، میں نے کہا، ضرور، میں بھی دعا کروں گا اور ہمارے ایک بزرگ حافظ صاحب ہیں، اُن سے بھی آپ کو پڑھنے کیلئے کچھ لے کردوں گا، اللہ فضل کرے گا، پھر میں نے حافظ صاحب کا مختصر سا تعارف کروایا، تسبیحات کی اہمیت بتائی تو ارشد ملک کے چہرے پر پہلی بار زندگی نظر آئی، کہنے لگے، پلیز آپ نے یاد سے پڑھنے کیلئے کچھ لے کر دینا ہے، یہ کہہ کر ارشدملک نے اپنی جیب سے موبائل نکالا، مجھ سے میرا نمبر لیا، اپنے موبائل میں میرا نمبر سیو کیا اور جب ہم ایک دوسرے کو خدا حافظ کہہ رہے تھے تب بھی مجھ سے کہا ’’پلیز حافظ صاحب سے مجھے پڑھنے کیلئے ضرور لے کر دینا ہے‘‘، میں نے کہا ’’جی ان شاء اللہ‘‘۔اگلے دن میں نے حافظ صاحب کو ڈھونڈنا شروع کیا مگر اُن سے رابطہ کرنے کے مخصوص اوقات میں تمام تر کوشش کے باوجود اُن سے رابطہ نہ ہو پایا، منگل یکم ستمبر، ارشد ملک نے کال کی، میں پروگرام ریکارڈنگ میں تھا، کال اٹینڈ نہ کر سکا، چند لمحے بعد اُن کا میسج آیا، اسلام و علیکم، پلیز اٹینڈ کال، ایم ارشد ملک جج، میں پروگرام سے نکلا، ایک دوسرے پروگرام میں چلا گیا، اُنہیں کال بیک کرنا بھول گیا، اگلے دن دو ستمبر کو اُن کا دوسرا میسج آیا، سوری آپ کو ڈسٹرب کر رہا ہوں، آپ کو یاد دلانا تھا کہ آپ نے مجھے حافظ صاحب سے پڑھنے کیلئے لے کر دینا ہے، اُس پیغام کے بعد میں نے ایک بار پھر سے حافظ صاحب کو ڈھونڈا، عجیب اتفاق اِس بار بھی حافظ صاحب نہ ملے، دو دن بعد میں بھی بھول گیا اور پھر ارشد ملک کا بھی کوئی فون نہ آیا۔آج مجھے یہ سب کیوں یاد آ رہا، اس لئے کہ میں ٹی وی پر ارشد ملک کے انتقال کی خبر سن چکا، خبر سنتے ہی میں نے بےیقینی کے عالم میں ارشد ملک اور اپنے مشترکہ دوست کو فون کیا، وہ اتنا دکھی تھا کہ اُس سے بات ہی نہیں ہو پا رہی تھی، بتانے لگا، ارشد ہر ہفتے کہتا، بھٹی صاحب سے کہیں مجھے پڑھنے کیلئے لے کر دیں، میں نے اپنے دوست سے پوچھا، ارشد ملک کو ہوا کیا، دوست بولا، بظاہر کورونا ہوا، کورونا جاتے جاتے پھیپھڑوں کو بہت نقصان پہنچا گیا، کورونا گیا تو ہارٹ اٹیک ہو گیا لیکن اصل میں اُسے تنہائی، ڈپریشن نے مار ڈالا ہے۔ صورتحال یہ تھی کہ میرے پنڈی والے گھر میں بجلی میٹر کا مسئلہ تھا، میں نے ارشد ملک سے کہا یار کسی کو کہہ کر بجلی میٹر تو چالو کروا دو، چنددن بعد اُسے پھر سے یاد کروایا، جب پھر بھی کام نہ ہوا تو میں نے کہا، یار اتنا چھوٹا سا کام کہا ہے، کیوں نہیں کروا رہے؟ یہ سن کر ارشد ملک کی آنکھوں میں آنسو آگئے، گلو گیر لہجے میں بولا یار تمہیں کیا بتاؤں، اب لوگ میرا فون بھی نہیں سنتے، مجھ سے ملنا پسند نہیں کرتے، مجھے دیکھ کر لوگ رستہ بدل جاتے ہیں۔

میرا دوست بتا رہا تھا کہ کس طرح ارشد ملک کے خاندان نے مشکل کاٹی، کس طرح دو بیٹوں اور دو بیٹیوں والا ارشد ملک پُرامید تھا کہ جب میں پٹیشن دائر کروں گا تو عدالت مجھے کم از کم وکالت کرنے کی اجازت دیدے گی، جب دوست یہ سب بتا رہا تھا تب میں سوچ رہا تھا، ہمارے سسلین مافیا، گاڈ فادر کتنے ظالم، کیا چالیں چلیں، پہلے ارشد ملک کی 2005کی اخلاق باختہ وڈیو خریدی، پھر اسے احتساب عدالت کا جج لگوایا، پھر اس کے پاس اپنے کیس لگوائے، پھر مبینہ طور پر اخلاق باختہ وڈیو کے زور پر مقدموں کے فیصلے اپنی مرضی کے کرانے کی کوشش کی، ناکامی ہوئی تو پلان بی کے تحت ارشد ملک کے دوستوں کے ذریعے اخلاق باختہ وڈیو کے زور پر من مرضی کی وڈیوز بنائی گئیں، اُسے بلیک ملیک کرکے جاتی امراء نواز شریف کے دربار میں پیش کیا گیا، مدینے میں حسین نواز سے ملاقاتیں کروائی گئیں، دوستوں کے ذریعے پیسے، غیرملکی شہریت کی آفریں کی گئیں، کہا گیا، استعفیٰ دے دو، خاندان کے ساتھ باہر آجاؤ، بس ایک پریس کانفرنس کردو کہ میں نے سب فیصلے فلاں فلاں کے دباؤ میں کئے، جب ارشد ملک یہ بات نہ مانا تو پھر مریم نواز کی پریس کانفرنس ہو گئی، سوچ رہا ہوں، ارشد ملک مر گیا، سب نے مرنا لیکن گاڈ فادر، سسلین مافیا اوپر جا کر اللہ تعالیٰ اور ارشد ملک کا کیسے سامنا کریں گے؟


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔