بلاگ
Time 20 دسمبر ، 2020

1971 کا سانحہ۔ اصل ذمہ دار الیکشن کمیشن

فائل:فوٹو

کورونا کی وبا شدت اختیار کررہی ہے۔ میں تو پھر پہلی لہر کی طرح خوف زدہ ہو گیا ہوں۔ کسی تقریب میں نہیں جا رہا۔ بہت ہی ممتاز شخصیتیں، صحافی، مصور، محقق اور اساتذہ دیکھتے ہی دیکھتے دنیا سے اُٹھ رہے ہیں۔ احتیاط کی اشد ضرورت ہے۔ گھر سے باہر ماسک لگا کر نکلیں۔ ہجوم سے گریز کریں۔

انتشار و اضطراب و احتیاج و بےبسی

زندگی کٹتی ہے کیسے ایک بازو کے بغیر

16دسمبر جب بھی آتی ہے اپنے ساتھ محسوسات کی آندھیاں لے کر آتی ہے۔ پہلے تو 1971کا ہی المیہ تھا پھر 2014سے آرمی پبلک اسکول پشاور سانحے نے اِس گریہ زاری کو دو چند کردیا۔ دونوں کا تعلق آرمی سے ہے۔ آرمی والوں کی اولادوں سے۔ اور پورے ملک کے ذہن سے، ضمیر سے۔ ایک دوسرے پر الزامات تو 49سال سے اور اب 6سال سے عائد کیے جارہے ہیں۔ کسی کی خواہش یہ نہیں کہ اُن کے اسباب تلاش کئے جائیں۔ تحقیق کی جائے۔ نتائج اخذ کرکے آئندہ کے لئے اِن عوامل اور محرکات سے بچا جائے۔

تاریخ نے ایک حقیقت تو واضح کردی کہ بچھڑنے والے مشرقی پاکستانی اب بنگلہ دیشی ہم سے بہتر منتظم تھے۔ ہم سے زیادہ جمہوری شعور رکھتے تھے۔ ہم سے زیادہ مسلمان تھے۔ اِس لئے وہ ہم سے آگے نکل گئے۔ مارشل لا وہاں بھی لگے کیونکہ اُس کی روایت پڑ چکی تھی لیکن وہاں جاگیردار، سردار نہیں تھے۔ شہری مافیائیں یہاں کی طرح طاقتور نہیں تھیں۔ مختلف زبانیں، مختلف نسلیں نہیں تھیں۔ صوبے تھے نہ صوبائیت۔ وہ اقتصادی طور پر بہتر حیثیت میں ہیں۔ اُن سے الگ ہونے کے بعد ہمارے ہاں انتشار ہے، اضطراب ہے۔ صوبائی و لسانی تعصبات، فرقہ پرستی شدت پر ہے۔ دہشت گردی ہے، انتہا پسندی ہے۔ مشرقی پاکستانی ارکانِ اسمبلی اِن فتنوں میں رکاوٹ بنتے تھے۔

میں آج آپ کو عالمِ اسلام کے اُس عظیم المیے کے بنیادی پہلوؤں کا حوالہ دے کر سیاسی جمہوری معاشرتی صورت حال کے تجزیے کی دعوت دینا چاہتا ہوں۔ آج اتوار ہے۔ آج جب آپ اپنی آئندہ نسلوں کے ساتھ گفتگو کریں۔ تو اِس امر پر ضرور غور کریں۔ اِس کی روشنی میں آج کی سیاسی پارٹیوں کے شور و غوغا، دعوؤں، شعلہ بیانی کا جائزہ لیں۔ یہ کس کو فریب دیتے ہیں؟ سراسر خود فریبی۔ اِس کے نتائج کیا نکلیں گے؟ ان کا خمیازہ کون بھگتے گا؟ 16دسمبر 1971کے المیے کے نتائج بھی غریب اکثریت کو کرب میں مبتلا کررہے ہیں۔ یا ڈھاکہ میں وہ محصورین جو پاکستان کے عشق میں بےگھر ہیں، بےبس ہیں۔ ہمارے حکمراں، ہم خود، ہماری سیاسی جماعتیں سنگدلی کا مظاہرہ کررہی ہیں۔ خدا کا خوف نہیں ہے۔ ہم اُن کو تو لاکھوں کی تعداد میں قبول کر لیتے ہیں جو ہمارے ہاں دہشت گردی کرتے ہیں۔ کابل واپس جاکر پاکستان پر ہی الزامات عائد کرتے ہیں۔ اِن چند ہزار کو اِن کے خوابوں کی سرزمین پر آنے نہیں دیتے۔

1971کے المیے میں ہم شیخ مجیب الرحمٰن پر، ذوالفقار علی بھٹو پر، یحییٰ خان پر بحیثیت عمومی فوج پر ذمہ داری ڈالتے ہیں۔ یہ تو سب فوری اسباب ہو سکتے ہیں۔ بھارت کی مداخلت بھی اِن اسباب میں سر فہرست ہے لیکن میں اِس کا ذمہ دار اُس وقت کے الیکشن کمیشن کو قرار دینا چاہتا ہوں جس الیکشن کو تاریخ کا آزادانہ، منصفانہ الیکشن قرار دیا جاتا ہے۔ اُس کا انتخابی عمل، سیاسی پارٹیوں کی شرکت کی اہلیت، طویل انتخابی مہم یہ سب اُس کی ذمہ دار ہیں۔ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری تھی کہ وہ امیدواروں کے کاغذاتِ نامزدگی داخل ہوتے اور اُن پر اعتراضات کے وقت دیکھتا کہ کیا مملکت کے بنیادی مقاصد کی پاسداری ہورہی ہے؟ میری بات اور میرا درد غور سے محسوس کیجئے گا۔ پھر اُن کی روشنی میں آج کی سیاسی، علاقائی صورتحال اور ارضی حقائق دیکھیں۔ اُس وقت تو کوئی آئین نہیں تھا لیکن یہ روح تو موجود تھی کہ الیکشن میں اُن پارٹیوں کو حصّہ لینے دیا جائے جن کی ملک بھر میں تنظیم ہو۔ جن میں سارے انتخابی حلقوں سے امیدوار نامزد کرنے کی اہلیت ہو کیونکہ جو پارٹیاں ملک بھر میں وجود نہیں رکھتیں اُنہیں الیکشن جیتنے پر پورے ملک کی باگ ڈور کیسے دی جا سکتی ہے؟ یہاں تو ملک کے علاقے ایک ہزار میل کے فاصلے پر تھے۔ الیکشن کمیشن اگر ساری پارٹیوں پر پابندی عائد کرتا کہ وہی انتخاب میں شرکت کی اہل ہیں جو سارے ملک سے امیدوار نامزد کرنے کی اہلیت رکھتی ہیں تو نتائج کیا ہوتے؟

دسمبر 1971کے انتخابی نتائج میں پارٹی پوزیشن نے ہی ملک تقسیم کردیا تھا۔ اس کے بعد کے سارے فوجی اور سیاسی عمل ایک ہاری ہوئی جنگ کو جیتنے کی ناکام کوششیں تھیں۔ اُس وقت کہا گیا کہ صرف ایک صوبے میں اکثریت حاصل کرنے والی پارٹی کو اقتدار کیسے سونپا جاسکتا ہے۔ اب کیا ہوتا ہے۔ جو پارٹی پنجاب میں اکثریت حاصل کرلے۔ اقتدار اسے مل جاتا ہے۔اب بھی یہی مسئلہ ہے۔ پارٹیوں کی جڑیں سارے علاقوں میں نہیں ہیں۔ اب بھی یہ سوچا جائے کہ کیا اِن کی قومی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ پورے ملک میں اپنے آپ کو منظم کریں؟ الیکشن ایک انتظامی عمل ہے۔ اِس لئے انتخابی حلقے بھی انتظامی بنیادوں پر ہونے چاہئیں۔

حکمراں تحریک انصاف پنجاب اور کے پی میں ہے۔ سندھ اور بلوچستان میں نہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کسی زمانے میں سب صوبوں میں تھی اب صرف سندھ تک سمٹ کر رہ گئی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ(ن) صرف پنجاب میں ہے۔ سندھ، کے پی اور بلوچستان میں اُس کی جڑیں نہیں ہیں۔ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کی جمعیت علمائے اسلام بلوچستان اور کے پی میں ہے۔ سندھ اور پنجاب میں اتنی موثر نہیں ہے۔ مملکت کی یکجہتی کے لئے بھی اور سب سے زیادہ غیرسیاسی طاقتوں کی سیاست میں مداخلت روکنے کے لئے ان پارٹیوں کی سارے صوبوں میں بھرپور تنظیم اور سرگرمی ضروری ہے۔ اگر قومی سیاسی پارٹیاں اس عمل کو نظر انداز کریں گی تو دسمبر 1970والی سیاسی صورت حال جنم لے سکتی ہے۔ الیکشن کمیشن، پارلیمنٹ، سپریم کورٹ سب کو سقوطِ مشرقی پاکستان کے اسباب و عوامل پر اِس انداز میں غور کرنا چاہئے۔ بڑھتی ہوئی انارکی اِس عمل سے رُک سکتی ہے۔ ملک کے ہر علاقے کو قومی اور وفاقی سطح پر اپنی نمائندگی اور فیصلہ سازی میں بھرپور شرکت کا احساس اور اعتماد اِسی طرح حاصل ہو سکتا ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔