سردیوں میں سیاسی ماحول گرم کیوں ہے؟

— فائل فوٹو

پاکستان کے موسم سرما میں ان دنوں سیاسی ماحول گرم ہے اور اس میں اقتدار میں بیٹھی تحریک انصاف سب سے زیادہ متحرک اور جلدبازی میں نظر آتی ہے جہاں روزانہ کی بنیاد پر سرکاری اور پارٹی ترجمان اپنا بیانیہ پیش کرتے ہیں۔

اپوزیشن جماعتوں کے جلسوں یا پریس کانفرنسز کے فوری بعد حکومتی جماعت کے ترجمان میدان میں کود پڑتے ہیں۔ ٹی وی چینلز دیکھیں تو ایک کے بعد ایک کا بیان سننے میں آتا ہے۔ 

حکومت کو ایل این جی ، ڈالر اور گردشی قرضوں سمیت بڑھتی ہوئی مہنگائی پر تفصیلی بریفنگ دینی پڑرہی ہے ۔حکومت اپنے طویل مدتی منصوبوں کی بنیاد پر معیشت کو اوپر جاتا دیکھ رہی ہے لیکن عوام اپنی روزمرہ کی اشیائے ضروریہ کی بڑھتی قیمتوں سے پریشان ہے۔ 

دوسری جانب پی ڈی ایم اپنی بھرپور سیاسی قوت کا مظاہرہ کرنےکے بعد اختلافات کا شکار ہے۔ سیاسی مفادات آگے آتے نظر آرہے ہیں اور مضبوط اتحاد کی باتیں پس پشت ڈال دی گئی ہیں۔ ابتداء میں مولانا فضل الرحمان اور پیپلز پارٹی  پی ڈی ایم اور میاں نواز شریف کے بیانیے پر ایک رہے لیکن میاں صاحب کی کچھ سخت تقاریر کے بعد پیپلز پارٹی چند قدم پیچھے چلی گئی۔ 

گلگت بلتستان انتخابات کے موقع پر پیپلز پارٹی نے کچھ پنیترے بدلے ، بعد میں مولانا فضل رحمان نے استعفوں کی حکمت عملی متعارف کرائی لیکن اس معاملے پر ابتداسے یہ تاثر ملا کہ پی ڈی ایم استعفوں کے معاملے پر ایک پلیٹ فارم پر یکجا نہ ہوسکی۔ 

مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے چند ارکان نے اپنے استعفے قیادت کے حوالے کئے اور میڈیا پر تشہیر کرائی لیکن اجتماعی طور پر یہ عمل دیکھنےمیں نہیں آیا بلکہ یہ صدائیں بھی آنے لگیں کہ اسپیکر کو ممبر نے خود استعفی دیا ہو تو منظور کیا جائے۔

دوسری جانب پیپلز پارٹی نے صورت حال کو کچھ اس طرح سنبھالا کہ مولانا کے گڑھی خدابخش میں بے نظیر بھٹو کی برسی میں شریک نہ ہونے کو ممبران کی جانب سے اعتراضات کی شکل میں سامنے لایا گیا اور استعفے کی مانگ کو اس بناء پر رد کرنے کی تجویز دی گئی۔ 

بعد میں قیادت نے ممبران کی رائے کو ایک طرف رکھتے ہوئے اپنے بیان میں دسمبر کے آخری دن ممبران کے استعفے جمع کرنے کا اعلان کیا۔ پی ڈی ایم میں اس سیاسی آنکھ مچولی کو تحریک انصاف کے رہنماؤں نے ڈھول کی تھاپ کی طرح بجایا اور اختلافات کی آگ کو ہوا دینے کے لئے تیل کا چھڑکاو کرتے رہے۔

 آخر کار دسمبر کے اختتام پرپی ڈی ایم کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ ضمنی الیکشن میں حصہ لیں گے۔ سینیٹ الیکشن پر تمام جماعتیں دوبارہ بیٹھ کر فیصلہ کریں گی۔ پی ڈی ایم قیادت نے فیصلہ کیا کہ 19 جنوری کو اسلام آباد میں الیکشن کمیشن کے سامنے مظاہرہ ہوگا اور ایک شیڈول بنا کر نیب کے دفاتر کے سامنے بھی اس طرح کے مظاہرے کیے جائیں۔ پی ڈی ایم کے مشترکہ بیان میں مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ پی ڈی ایم کی قیادت فیصلہ کرے گی کہ لانگ مارچ اسلام آباد کی طرف کیا جائے گا یا پھر راولپنڈی کی طرف کیا جائے۔

اس تمام سیاسی صورتحال کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ملک کی سیاسی فضا خاصی گرم ہے اور کوئی چوٹ لگی تو ماحول تبدیل ہوسکتا ہے۔ سیاسی تجزیہ کار اور سیاسی رہنماؤں کے اندازے بتارہے ہیں کہ آئندہ چند ماہ میں اندورنی تبدیلیاں بھی ہوسکتی ہیں۔ 

دوسری جانب حکومتی وزراء و مشیران کی پھرتیاں بھی اس بات کی عکاسی کررہی ہیں کہ انہیں حکومتی امور چلانے ، کارکردگی دکھانے اور سیاسی داؤ پیچ کھیلنے میں غیر تربیت یافتہ ہونے اور تجربے میں کمی کا احساس ہوگیا ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔