بلاگ
Time 08 جنوری ، 2021

سانحہ ابرفین اور سانحہ مچھ

— فائل فوٹو

ایک اندوہناک سانحہ رونما ہو چکا ہے، پوری قوم حالت اضطراب میں ہے ، سب بے چین ہیں، بے جان لاشوں کی تصاویر اور ان کے کرب میں ڈوبے لواحقین کی آہ و بکاسن کر کلیجہ منہ کو آرہا ہے۔ 

سانحے کے بعد قوم کی نگاہیں اپنے محبوب رہنما کو ڈھونڈ رہی ہیں ، ہر آنکھ اشکبار اورہر چہرے پر ایک سوال ہے۔ لوگ اس بات کا انتظار کر رہے ہیں ہیں کہ کب ان کا رہنما آکر سب کو تسلی دے گا، گلے سے لگا کر سب کے آنسو پونچھے گا۔ 

لیکن وہ نہیں آ رہا، اس کی جانب سے دیگر  پیامبر بھیجے جا رہے ہیں جو لوگوں کو تسلی تو دیتے ہیں لیکن اس سے لوگوں کی تشفی نہیں ہو رہی۔ وہ ان سب کے آنے کے باوجود پریشان ہیں اور اپنے رہنما کی راہ تک رہے ہیں۔

یہ 1966 کا برطانیہ ہے جب ویلز میں ابرفین کے مقام پرکوئلے کی کان سے نکلنے والے فاضل مواد کا پہاڑ پاس کی آبادی پر جا گرتا ہے اور اس سے 116 بچوں سمیت 144 افراد زندہ دفن ہو جاتے ہیں۔ ان ہلاکتوں پر پوری برطانوی قوم اشکبار ہوجاتی ہے۔ ایک ایک کرکے حکومتی اہلکار اور شاہی خاندان کے نمائندے بدنصیب جگہ کا دورہ کرتے ہیں لیکن ملکہ برطانیہ فوری طور پراس مقام پرنہیں جاتیں۔ 

پورے ملک میں اس حوالے سے چہ مگوئیاں شروع ہو جاتی ہیں اور اپنے رویے پر ملکہ کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حادثے کے تقریبا آٹھ دن بعد ملکہ برطانیہ لوگوں کے بے حد اصرار پر وہاں پہنچتی ہیں اور حالات کا جائزہ لیتی ہیں ہیں۔ وہاں جا کر انہیں احساس ہوتا ہے کہ اتنی بڑے سانحے کے بعدبھی ان کا وہاں نہ پہنچنا لوگوں کو کس قدر کھلا ہوگا۔ سانحہ ابرفین ایک بہت بڑا حادثہ تھا جس کا پوری برطانوی قوم نے نہایت اثر لیا، ہفتوں اور مہینوں اس کے متعلق بات ہوتی رہی۔ اس سے متعلق فنڈ قائم ہوا اور اعلیٰ سطح پر تحقیقات کی گئی۔ 

آج اگر غور کیا جائے تو لوگ حادثے کو تقریباً بھول گئے لیکن انہیں یہ ضرور یاد رہا کہ ان کی ملکہ حادثے کے مقام پر دیر سے پہنچی تھیں اور یہ بات ملکہ بھی نہیں بھولیں۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ہمیشہ سانحہ کے مقام پر دیر سے جانے کو اپنی غلطی قراردیا اور وہ اس کی تلافی کیلئے برسوں بعد تک حادثے کے مقام پر باربارجاتی رہیں۔

اس سارے واقعے کا نیٹ فلکس پر چلنے والی عالمی شہرت یافتہ سیریز دی کراؤن میں نہایت خوبصورتی سے احاطہ کیا گیا ہے ۔ اس واقعے سے ملکہ برطانیہ کے جذبہ رحم سے عاری ہونے کا تاثر ابھرا جس سے یہ سوال پیدا ہوا کہ اگر ایک حکمران اپنے لوگوں کا دکھ درد محسوس نہیں کرسکتا، ان کے لیے رحم کا جذبہ اگر اس کے دل میں نہیں، اگر اس کے پاس اپنے لوگوں کے لیےمشکل حالات میں بھی وقت نہیں تو پھر وہ حکمران کیسے کہلائے گا؟

آئیے، اب آپ کو 2019 کے نیوزی لینڈ لیے چلتے ہیں جہاں کی وزیراعظم جسنڈا آرڈن نے سانحہ کرائسٹ چرچ کے بعد متاثرہ کمیونٹی کو گلے لگا کر اشکبار آنکھوں کے ساتھ تسلیاں دیں اور جس کے لائیو مناظر اور تصاویر پوری دنیا میں دیکھےگئے، یہ وہ مناظر تھے جن کو دیکھ کر سخت سے سخت دل انسان کا دل بھی پگھل جائے اور وہ بے اختیار یہ کہہ اٹھے کہ اگر رہنما ہو تو ایسا، سیاستدان ہو تو ایسا اور اگر اپنے لوگوں کے دکھ درد بانٹنے کی کوشش کرنی ہوتو بلاشبہ ایسے کی جائے۔

پوری دنیا میں سیاستداں، حکومتی اہلکارسانحات کے مقامات پر اور متاثرین سے ملنے جاتے ہیں اور ان کی اپنے طریقے سے اشک شوئی کی کوشش کرتے ہیں لیکن سانحہ کرائسٹ چرچ کے بعد نیوزی لینڈکی وزیراعظم نے جو کیا اس نے گویا اب اس کیلئے ایک معیار متعین کردیا۔ یا اب یوں سمجھیے کہ ہر سانحے کے بعد لوگ اپنے رہنما حکمراں یا بادشاہ سے اسی طریقے کی اشک شوئی کی توقع رکھتے ہیں اور یہ کچھ غلط بھی نہیں۔ شاید ایسا ہی ہونا چاہیےکہ جن لوگوں کے پیارے ان سے جدا ہو جائیں ان کی دلجوئی کیلئے ہر ممکن اقدام کیا جائے ویسے بھی ایسے لوگوں سے زیادہ ہمدردی کی ضرورت اور کس کو ہوسکتی ہے؟

چند روز قبل بلوچستان میں بھی ایسا ہی ایک اندوہناک سانحہ پیش آیا ہے جہاں ہزارہ برادی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو ایک بار پھر نشانہ بناتے ہوئے بے گناہ مزدوروں کو قتل کر کے پھینک دیا گیا ہے۔ مرنے والوں کے ورثا سخت سردی کے موسم میں سڑک پر لاشیں لیے بیٹھے ہیں اور ملک کے وزیراعظم کی راہ تک رہے ہیں۔ وزیراعظم وہاں جاتے ہیں یا نہیں یا کب جاتے ہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن قوم کو ان سے بس یہی امید ہے کہ وہ اس واقعے کو ملکہ برطانیہ کی طرح اپنے لیے سانحہ ابرفین جیسا ایک پچھتاوا نہیں بننے دیں گے کہ

حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا

لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔