بلاگ
Time 10 جنوری ، 2021

سانحہ مچھ اور ریاست کو لاحق خطرات

فائل:فوٹو

شہدائے مچھ بالآخر سپردِخاک کر دیئے گئے۔ دھرنے ختم ہونے کا اعلان ہو گیا۔ ملک بھر میں شہریوں کو درپیش دشواریاں بھی دور ہو گئیں۔ وزیراعظم کوئٹہ پہنچ گئے مگر اس عرصے میں بہت کچھ ہو گیا جو نہیں ہونا چاہئے تھا۔ 

یہ امر تجزیہ طلب ہے کہ وزیراعظم نے پہلے تدفین کی شرط لگا کر کیا تاریخ کے دھارے کا رُخ موڑا؟ وزیراعظم اور ہزارہ برادری دونوں میں سے کس کا اصرار انسانیت کے مفاد میں برحق تھا؟ کہا گیا کہ وزیر اعظم کو سیکورٹی خطرات کے پیش نظر وہاں جانے سے روکا گیا۔ جو بھی سیکورٹی کے ذمہ داران ہیں۔ کیا وہ صرف ممکنہ خطرات و خدشات کے ہی ماہر ہیں یا ہمارے یہ ادارے حقیقت میں ہونے والے حملوں سے بھی آگاہ ہوتے ہیں؟ اوّل تو ان حملہ آوروں کا راستہ روک کر ان کو نیست و نابود کرنا سیکورٹی اداروں کی ذمہ داری بنتی تھی۔ یا اگر ان سفاکوں کے مقابلے میں بے بسی تھی۔ تو مچھ کوئلے کی کانوں کے اس ہال میں سیکورٹی الرٹ بھیج دیا جاتا۔ وہ اس مقام سے منتقل ہوجاتے۔

پاکستان کے سیکورٹی اداروں سے زیادہ کون جانتا ہے کہ ہمارے ہمسائے اور جنوبی ایشیا کے رقبے اور آبادی کے لحاظ سے بڑے ملک بھارت نے پاکستان کے وجود کو دل سے آج تک قبول نہیں کیا ہے۔ ایران ہر چند کہ سب سے پہلے تسلیم کرنے والا اور اقوام متحدہ کی رکنیت میں معاونت کرنے والا۔ 1965 اور 1971کی جنگ میں پاکستان سے بے حد سیاسی اور عسکری تعاون کرنے والا ملک ہے۔ مگر انقلاب کے بعد ایران کو بھی ہم سے شکایتیں رہی ہیں۔ افغانستان ہماری محبتوں۔ لاکھوں مہاجرین کی میزبانی کے باوجود پاکستان کا مخالف ہے۔ بھارت ان دونوں کی مخالفتوں اور شکایتوں سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ افغانستان اور ایران دونوں میں بھارتی مفادات عروج پر ہیں۔ ہماری طرف سے ان ملکوں سے تعلقات معمول پر لانے کی کوششیں کم ہیں۔

بھارت کی 1947سے کوشش رہی ہے کہ پاکستان کبھی مستحکم نہ ہو۔ وہ اکھنڈ بھارت کا نعرہ بلند کرتا رہے۔ اب نریندرا مودی کے دونوں ادوار میں تو ہندو توا اور اکھنڈ بھارت کے نظریات پُر تشدد انداز میں پھیلائے جارہے ہیں۔ افغانستان اور ایران دونوں کی سرحدوں سے بھارت تخریبی کارروائیوں کے لئے اپنے ایجنٹ بھیجتا رہتا ہے۔ یہ ہمسائے حکومتوں کے خلاف نہیں ہیں۔ بلکہ پاکستان کی ریاست کے خلاف ہیں۔ انہیں کبھی روس سے مدد ملتی رہی ہے یا امریکہ سے۔

پاکستان میں ہمیشہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان سنگین محاذ آرائی رہی ہے۔ اپوزیشن حکومت گرانے کے لئےہمیشہ کوشاں رہتی ہے۔ کوئی سیاسی حکومت اطمینان سے اپنے پروگرام پر عملدرآمد نہیں کرسکی ہے۔ سیاسی مخالفت ذاتی مخالفت میں بدل جاتی ہے۔ حکمراں اور مخالفین دونوں آئین۔ قانون۔ اصولوں اور اخلاقیات سے ماورا ہوکر ایک دوسرے سے انتقام لیتے ہیں۔ انہیں در پردہ اداروں کی حمایت بھی حاصل ہوتی ہے۔ اس سیاسی انتشار کو بھی ہمارے غیر ملکی مخالفین اپنے حق میں استعمال کرتے ہیں۔ پاکستان کا میڈیا۔ سیاسی جماعتیں۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں ۔ مذہبی جماعتیں۔ دانستہ نا دانستہ ان کے ہاتھوں میںکھلونا بنتی ہیں۔ فوجی حکومتوں میں کچھ سال ایسے ہوتے ہیں جب خلفشار نہیں ہوتا۔ وہ اپنے اہداف سکون سے حاصل کرلیتی ہیں۔ مگر سیاسی حکومتوں کو یہ یکسوئی کبھی نصیب نہیں ہوسکی ہے۔

اپنے ہمسایوں کی اس ذہنی۔ نظریاتی۔ اور تاریخی نفرتوں کو سامنے رکھتے ہوئے اگر ہم سانحۂ مچھ کا تجزیہ کریں تو بہت سے خطرناک پہلوسامنے آئیں گے۔ ماضی کے بہت سے تاریک گوشے روشن ہوں گے۔ غیروں کی جارحیت۔ ہماری حماقتیں آشکار ہوں گی۔ پاکستان میں انتشار اور انارکی پھیلانے کے منصوبے میں ایک اہم اور حساس عنصر یہ بھی ہے کہ پاکستان کے اداروں فوج۔ عدلیہ۔ میڈیا۔ علماء کے خلاف بھی مسلسل بے چینی پیدا کی جاتی ہے۔ ملکی تاریخ میں بار بار مداخلت کے باعث فوج پہلے ہی تنقید کا نشانہ رہی ہے۔ مگر سب سے بڑے صوبے کی سیاسی پارٹی کے اقتدار سے الگ ہونے کے بعد سوشل میڈیا اور عام حلقوں ذہنوں میں اس ادارے کو زیادہ معتوب کردیا گیا ہے۔ عدالتوں کے فیصلے نہ مان کر عدلیہ کو متنازع بنادیا جاتا ہے۔ احتساب کے لئے خود ادارے اور ان کے قوانین بناتے ہیں۔ ان کے سربراہ کا خود مل کر تقرر کرتے ہیں۔ پھر ان کو بھی متنازع بنادیا جاتا ہے۔ اگر اداروں کی اس طرح مزاحمت کی جائے تو ملک میںسسٹم کیسے بن پائے گا۔

اس طرح حکومت اور ریاستی ادارے سب سے اعتبار اٹھادیا جاتا ہے۔ حکومت اگر عوام کو لاحق خطرات کے بارے میں چوکنا کرتی ہے تو اس کا بھی مذاق اڑایا جاتا ہے جیسے کورونا سے بچائو کے سلسلے میں ہورہا ہے۔ اموات کا سلسلہ رکنے میں نہیں آرہا ۔

کسی بھی ملک کیلئے یہ صورت حال بہت خطرناک اور حساس ہوتی ہے۔ ایسے میں سیاسی تحفظات ہوں یا سیکورٹی خدشات وہ اس انتشا ر کو مزید ہوا دیتے ہیں۔ وزیر اعظم کے گرد موجود وزراء۔ مشیروں۔ معاونین خصوصی اور اعلیٰ سرکاری افسروں سب میں کیا کوئی ایسا صاحب ادراک نہیں تھا جو انہیں کوئٹہ جانے کا مشورہ دے کر شہر شہر سلگتی چنگاریوں کو بھڑکنے سے روک دیتا۔ وزیر اعظم کی سیکورٹی کےلئے تو ایک فوج ظفر موج موجود ہوتی ہے۔ پھر پاکستان ایسا ملک بھی نہیں ہے کہ اس کے ادارے اپنے وزیر اعظم کو تحفظ نہ دے سکیں۔ ان کے نہ جانے سے پورے ملک میں مشکلات پیدا ہوئی ہیں۔ سانحۂ مچھ کے شہداء کے لواحقین اور ان کے ہمدرد تو اس وقت گریے اور اندوہ کے عالم میں ہیں۔ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ شہر شہر گلی گلی دھرنوں سے حکومت کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس سے اذیت اور پریشانی میں مبتلا عام ہم وطن ہوتے ہیں۔ ایمبولینس گاڑیاں اسپتال نہیں پہنچ پاتیں۔ لوگ اپنے دفتر اور کارخانے نہیں جا پاتے۔ پھر ٹریفک پر کہیں کہیں پتھرائو سے عام آدمی زخمی بھی ہورہے ہیں۔ اکثر مقامات پر عام لوگوں کی ہمدردیاں بھی الٹ جاتی ہیں۔ شہدا کا لہو بھی رنگ نہیں لاتا۔

میری بہت ہی مخلصانہ اور مودبانہ گزارش حکمرانوں اور اپوزیشن دانشوروں۔ یونیورسٹیوں۔ علمائے کرام سے یہ ہے کہ ہم پاکستان کے خلاف عالمی سازشوں کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ ہزارہ برادری کو نشانہ بناکر یہ سفاک حلقے کیا کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ بعض تجزیہ کار آبادی میں فرقوں کے تناسب میں اتار چڑھاؤ کو ہدف بتاتے ہیں۔ ان قاتلوں کو ادراک تو ہوتا ہے کہ جب ہزارہ برادری کے پیاروں کو ہلاک کریں گے تو وہ جنازوں کے ساتھ دھرنے دیں گے۔ ملک بھر میں انتشار پیدا ہوگا۔اس طرح وہ دہرے مقاصد حاصل کرلیتے ہیں ۔ کچھ مذہبی عناصر مندروں میں آگ لگاکر توڑ پھوڑ کرکے ہنگامہ آرائی کررہے ہیں۔ 

اس قسم کے واقعات سے خدشات بڑھ رہے ہیں۔ یہ عدم استحکام۔ انتشار۔ اقتصادی بحران ایک منظم سیاسی سماج ہی دور کرسکتا ہے جس کے نقطۂ نظر اور فہم میں ایک ریاست کا تحفظ۔ انسانیت کی اعلیٰ اقدار کی پاسداری ہو۔ وقتی فائدے نہ ہوں۔ دوسروں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھانا نہ ہو۔ دشمنوں کے سیاسی عزائم کا ادراک کریں۔ یونیورسٹیوں کے محققین بھارت افغانستان ایران امریکہ کے نظریات پر تحقیق کریں۔ ملک میں ایسا ماحول تخلیق کریں جہاں سیاستدانوں اساتذہ اور طلبہ کے نفسیاتی رویے۔ سماجی ردِ عمل ان خطرات کا تدبر کریں۔اس کے لئے تربیت اور ذہن سازی ناگزیر ہیں۔ تاکہ ہم دشمنوں کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی بننے سے انکار کرسکیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔