22 مارچ ، 2021
وزیراعظم عمران خان کورونا وائرس میں مبتلا ہیں۔ اُن کی اہلیہ بھی اِسی وبا کا شکار ہو چکی ہیں۔ جیسے ہی خان صاحب کے بارے میں یہ خبر میڈیا پر نشر ہوئی اُس پر سوشل میڈیا پر دو قسم کا ردِعمل سامنے آیا۔ ایک طرف تو بڑی تعداد میں لوگوں نے خان صاحب کی جلد صحت یابی کے لئے دعائیں کیں اور نیک خواہشات کا اظہار کیا تو دوسری طرف بددعاؤں کا ایک ٹرینڈ چلایا گیا جو سیاست میں اُس بدتہذیبی، بدتمیزی اور اخلاقیات کی پستی کا اظہار ہے جس میں ہر گزرتے دن کے ساتھ تیزی آ رہی ہے اور جسے روکنے کی کوئی کوشش نہیں ہو رہی۔
مولانا فضل الرحمٰن جنہیں وزیراعظم اور پی ٹی آئی والے مولانا ڈیزل کہتے نہیں تھکتے، اُن کا بیان نظر سے گزرا جس میں اُنہوں نے خان صاحب کی صحت یابی کے لئے دعا کی۔ بلاول بھٹو نے بھی خان صاحب کی صحت کی بحالی کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ ن لیگ کے رہنما احسن اقبال کی طرف سے بھی ایسے ہی جذبات کا اظہار کیا گیا اگرچہ مریم نواز کا اس سلسلہ میں کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔ گالم گلوچ اور اپنے سیاسی مخالفین سے دشمنی کی حد تک نفرت اور عناد رکھنے کے بڑھتے ہوئے رواج، جس میں انصاف پس پشت چلا جائے اور جھوٹے الزامات اور زیادتی کرنے کو سراہا جائے، کے آگے بندھ باندھنے کے لئے مریم نواز بھی خان صاحب سمیت سب بیماروں کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کر دیتیں تو بہتر ہوتا۔
یہ بات درست ہے کہ میاں نواز شریف اور اُن کی اہلیہ مرحومہ کلثوم نواز (ﷲ تعالی اُن کی مغفرت فرمائے۔ آمین) کی بیماری کا اُن کے مخالفین خصوصاً پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے بہت سے افراد نے مذاق اُڑایا، جو قابلِ مذمت اور بُرا فعل ہے۔
اب جب عمران خان کو کورونا ہوا تو اُن کے خلاف سوشل میڈیا پر بد دعاؤں کا ٹرینڈ چلایا گیا اور گزشتہ روز ٹوئٹر پر ایک ایسا ہی ٹرینڈ، ٹاپ ٹرینڈ بن گیا۔ ایک ٹی وی چینل کی رپورٹ کے مطابق اس کے پیچھے مبینہ طور پر ن لیگ کی سوشل میڈیا ٹیم کا ہاتھ تھا۔
سوشل میڈیا کی اِس بدتہذیبی اور بدتمیزی کے خلاف مریم نواز جو خود ٹوئٹر پر کافی فعال نظر آتی ہیں، کو یہ بھلا کر کہ پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا اُن کے ساتھ اور اُن کے والدین کے ساتھ کیا کچھ کرتا رہا، اپنا سخت ردعمل دینا چاہئے تھا تاکہ سیاست اور سیاسی اختلافِ رائے میں بڑھتی ہوئی بدتہذیبی اور بدتمیزی کو بہتر اخلاق سے شکست دی جا سکتی۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت پی ٹی آئی اور ن لیگ کی سوشل میڈیا ٹیمیں اور ان سیاسی جماعتوں کے ووٹرز و سپورٹرز بدتمیزی اور گالم گلوچ میں ایک دوسرے کے مقابلے پر ہیں۔
سیاسی اختلاف کی بنیاد پر مخالفین کو بُرا بھلا کہنا اور بداخلاقی کی تمام حدود و قیود پار کرنے کا رواج اسی اور نوے کی دہائیوں میں بھی رہا، جس میں ن لیگ کا بھی بڑا حصہ تھا لیکن اس بھولے رواج کو پی ٹی آئی کے رہنماؤں اور فالوورز نے حالیہ برسوں میں خوب ہوا دی جسے ن لیگ نے بھی اپنا لیا اور آج سیاسی مخالفین کے خلاف گالم گلوچ، گندی زبان کا استعمال اور بیماری کی صورت میں بددعائیں دینے تک کا سلسلہ عام ہو چکا ہے۔
اس سلسلے میں اگر سیاسی جماعتوں کے رہنما خاموش تماشائی بنے رہیں گے اور ایسے ٹرینڈز کی کھل کر مذمت نہیں کریں گے تو بدتہذیبی مزید زور پکڑے گی۔ ﷲ تعالی سے دعا ہے کہ وزیراعظم عمران خان، نواز شریف سمیت تمام بیماروں کو صحت مند زندگی عطا فرمائے۔ میری خان صاحب اور مریم نواز سے بالخصوص درخواست ہے کہ سیاست میں بدتہذیبی اور بدتمیزی کے کلچر کو ختم کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔
مخالفین کے خلاف بدزبانی اور بدتمیزی کی کھل کر مذمت کریں تاکہ دونوں سیاسی جماعتوں کے فالوورز اور اُن کی سوشل میڈیا ٹیموں کی غلط بات کرنے پر حوصلہ شکنی ہو اور برداشت، اچھے اخلاق اور رواداری کو رواج دیا جائے۔
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔