پاکستان ہاکی فیڈریشن کو خدمات درکار ہیں تو پلاننگ کے ساتھ بات کرے، سلمان اکبر

سابق کپتان سلمان اکبرگزشتہ چند سالوں سے ہالینڈ میں اکیڈمی چلا رہے ہیں،فوٹو: ٹوئٹر سلمان اکبر

پاکستان ہاکی ٹیم کے سابق کپتان سلمان اکبر کا کہنا ہے کہ پاکستان سے محبت ظاہر کرنے کے لیے ضروری نہیں کہ وہ ہالینڈ میں اپنا سب کچھ چھوڑ کر رضاکارانہ طور  پر پاکستان ہاکی ٹیم کے ساتھ کام کرنے آجائیں۔

جیو نیوز کو انٹرویو میں ایشین گیمز کے گولڈ ونر گول کیپر نےکہا کہ وہ گزشتہ چند سالوں سے ہالینڈ میں اکیڈمی چلا رہے ہیں اور اس اکیڈمی کے لیے ان کے مختلف معاہدے ہیں جن کو وہ یونہی چھوڑ کر نہیں آسکتے، پاکستانی گول کیپرز کی مدد کو وہ بالکل تیار ہیں لیکن ہر کام کا ایک پروفیشنل طریقہ ہوتا ہے، یونہی منہ اٹھاکر کام نہیں ہوجاتا۔

انہوں نے کہا کہ اولمپکس ہاکی کوالیفائر کے میچز سے ڈیڑھ ماہ قبل آصف باجوہ نے انہیں کال کی اور کہا کہ فلائٹ پکڑ کر پاکستان آجاؤں جو ممکن نہیں تھا ۔ 

سابق گول کیپر کا کہنا تھا کہ یہ نان پروفیشنل طریقہ ہوتا ہے کہ آپ کسی کو ایک فون کریں  اور کہیں آجائیں اور امید رکھیں کہ وہ سب کچھ چھوڑ کر آجائے گا، ایسا نہیں ہوتا۔

سلمان کا کہنا تھا کہ وہ ماضی میں پاکستان میں گول کیپرز کے لیے کلینک منعقد کرنے آچکے ہیں اور آئندہ بھی آئیں گے اگر پاکستان ہاکی فیڈریشن کو خدمات درکار ہے تو پلان لے کر بات کریں، گول کیپرز راتوں رات نہیں بن جاتے ، گول کیپرز تیار کرنے کے لیے ایج گروپ سے تربیت دینا ہوتی ہے، کھلاڑی کو گروم کرنا ہوتا ہے پھر جا کر وہ ٹاپ لیول کا پلیئر بنتا ہے۔

ایک سوال پر سابق کپتان نے کہا کہ پاکستان ہاکی کا سب سے بڑا مسئلہ  پروفیشنلزم کی کمی ہے، ہاکی بھی بس سینیئر نیشنل ٹیم کی حد تک محدود رہ گئی ہے، وہاں تک آنے کے ٹریک پر کوئی کام نہیں ہورہا جس کی وجہ سے کھلاڑی گروم نہیں ہوپارہے اور اس کا ٹیلنٹ کی کمی سے کوئی تعلق نہیں، بلکہ ٹریننگ کی کمی سے تعلق ہے، پلیئر اس وقت ہی بہتر ہوتا ہے جب اس کی ٹریننگ بھرپور کی جائے اور ٹریننگ ایک دو ہفتے کے کیمپ سے نہیں ہوتی، پورا سال بلکہ کئی سال کام کرنا پڑتے ہیں۔

انہوں نے ایک سوال پر کہا کہ سیکھنے اور سیکھانے دونوں ہی کے انداز تبدیل کرنا ہوں گے، اس کے بغیر ہاکی میں بہتری نہیں ہوسکتی۔

 انہوں نے کہا کہ انہیں خوشی ہوگی اگر وہ پاکستان ہاکی ٹیم سے وابستہ ہوں لیکن ایسا نہیں ہوسکتا کہ میں اپنا لگا ہو ا روزگار چھوڑوں اور آجاؤں، پلاننگ کے ساتھ پروفیشنل انداز میں اگر کام کیا جائے تو بات کی جاسکتی ہے۔

مزید خبریں :