22 مئی ، 2021
22 مئی 2020 بروز جمعۃ الوداع کی دوپہر ایک بجے پی آئی اے کے طیارے پی کے 8303 نے 91 مسافروں اور عملے کے 7 اراکین کو لے کر لاہور سے کراچی کے لیے اڑان بھری جس میں سوار مسافروں میں کہیں کوئی بیوی بچوں سے ملنے کے لیے بے چین تھا تو کہیں کسی کو عید سے قبل اچانک پہنچ کر اہل خانہ کو سرپرائز دینے کی جلدی تھی۔
لیکن کون جانتا تھا کہ بد نصیب طیارے میں سوار اپنوں سے ملن کے منتظر افراد کا انتظار کچھ ہی دیر میں موت کی آغوش میں سوجائے گا۔
پی آئی اے کا طیارہ جمعۃ الوداع کی نماز کے بعد تقریباً پونے 3 بجے لینڈنگ سے 3 سیکنڈ قبل کراچی کے علاقے ماڈل کالونی میں جناح گارڈن کی آبادی پر جاگرا، دم کے بل گرنے کی وجہ سے طیارے کے اگلے حصے میں بیٹھے 2 مسافر معجزانہ طور پر بچ گئے لیکن 97 مسافر ہمیشہ کے لیے ابدی نیند سوگئے۔
اس حادثے کے بعد ہر طرف آگ و دھوئیں نے ماڈل کالونی کے اس علاقے کو اپنی آغوش میں لے لیا جس نے دیکھنے والوں کو یہ کہنے پر مجبور کردیا کہ یہ کسی قیامت صغریٰ کا منظر تھا۔
طیارے میں سوار ہر فرد کے اہل خانہ کی عید کی خوشیاں ماتم میں بدل گئیں، حادثے کے بعد ہر ایک کو اپنے پیارے کی فکر پڑ گئیں، کہیں کوئی اپنے پیاروں کی لاشوں کی شناخت پر ماتم کناں تھا، تو کہیں کوئی کسی اپنے کا جسد خاکی ڈھونڈنے کے لیے اسپتالوں کے چکر کاٹ رہا تھا۔
’حادثے میں ایک گھریلو ملازمہ بھی جاں بحق ہوئی’
چند لوگ ایسے بھی تھے جو طیارے کے مسافر تھے نہ عملے کے افراد لیکن اس کے باوجود بھی اس حادثے نے ان کی زندگیوں پر انمٹ نقوش چھوڑدیے۔
بدنصیب طیارہ ماڈل کالونی جناح گارڈن کی جس گلی میں گرا وہاں کے رہائشی کئی افراد اس حادثے کے سبب یا تو اپنے گھروں سے بے گھر ہوئے یا تو کہیں کوئی اپنی جان سے گیا۔
عینی شاہدین کے مطابق جس گلی میں طیارہ گرا وہاں کے رہائشی مکانات میں سے ایک گھر میں کام کرنے والی ملازمہ بھی اس حادثے میں اپنی جان گنوابیٹھی جب کہ دوسری جانب اسی گلی کے رہائشی سہیل اصغر بھی اس حادثے سے شدید متاثر ہوئے۔
جیو نیوز ویب سے گفتگو کرتے ہوئے سہیل اصغر نے بتایا کہ وہ اپنی والدہ اور بیوی بچوں سمیت ماڈل کالونی کے جناح گارڈن میں گزشتہ 15 برسوں سے رہائش پذیر ہیں اور پچھلے 25 برسوں سے جنگ گروپ سے وابستہ ہیں۔
سہیل اصغر کے مطابق جس وقت طیارہ حادثہ پیش آیا اس وقت وہ اہل خانہ کے لیے سودا سلف لینے کی غرض سے باہر نکلے تھے اور گاڑی میں بیٹھ کر جیسے ہی انہوں نے گاڑی اسٹارٹ کرنے کی کوشش کی تو ایک زور دار دھماکا ہوگیا، دھماکا اتنا شدید تھا کہ وہ گاڑی سے باہر گر کر بے ہوش ہوگئے۔
انہوں نے بتایا بے ہوش ہونے کے بعد انہیں علاقہ مکینوں نے اٹھاکر کسی خالی مکان کے پورچ میں لٹادیا اور ان کی حالت دیکھ کر ریسکیو اداروں کو اطلاع دی۔
سہیل اصغر نے کہا کہ ہوش آنے پر انہوں نےدیکھا کہ ان کی دونوں ٹانگیں بری طرح جھلس چکی ہیں، گھٹنے کا اوپری حصہ غائب ہے، چہرے پر ہائیڈرولک آئل اور مختلف گیسز گرنے کے باعث چہرہ اور جسم کا کچھ حصہ بھی جھلس گیا تھا جس سے خون جاری تھا۔
سہیل اصغر کے مطابق بعدازاں انہیں سی ایم ایچ اسپتال لے جایا گیا جہاں انہیں 2 دن بعد ہوش آیا، سی ایم ایچ میں علاج کے بعد کچھ ناگزیر وجوہات کی بنا پر انہیں پی این ایس شفاء اسپتال منتقل کردیا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ پی این ایس شفاء میں وہ 6 سے 7 ماہ زیر علاج رہے اور اس دوران ان کی 20 سے 25 سرجریز کی گئیں، 200 سے زائد اینٹی بائیوٹیکس دی گئیں، علاج کے دوران درد کی شدت اتنی ہوا کرتی تھی کہ کئی کئی راتیں درد سے کراہتے اور جاگتے ہوئے گزارنا پڑتی۔
سہیل اصغر کا کہنا تھا کہ اس حادثے کو ایک سال کا عرصہ مکمل ہوچکا ہے لیکن ان کی صحت اور گھر پر اس کے اثرات آج بھی نمایاں ہیں، ٹھیک ہوجانے کے باوجود وہ کچھ معذوری شکار ہیں، چہرے پر بھی ہائیڈرالک آئل سے جلنے کے نشان آج تک موجود ہیں لیکن وہ اللہ تعالیٰ کے شکر گزار ہیں کہ وہ کسی کے محتاج نہیں۔
حادثے کے عینی شاہد کے طور پرگفتگو کرتے ہوئے سہیل اصغر کی والدہ عذرا بیگم نے بتایا کہ حادثے کے وقت وہ گھر میں سہیل کے بچوں کے ساتھ پریشان تھیں کیونکہ طیارہ گرنے کے بعد گھرمیں دھواں ہی دھواں تھا جس سےگھٹن تھی، باہر دھماکے اور آگ لگی ہوئی تھی، انہیں چار گھنٹے بعد گھروں سے باہر نکالاگیا اس دوران ہر لمحہ لگ رہا تھا جیسے وہ بھی مر جائیں گے۔
حکومتی مالی امداد سے متعلق کیے گئے سوال کے جواب میں سہیل اصغر کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے طیارہ حادثے کے زخمیوں کو فی کس 5 لاکھ روپے اورانتقال کر جانے والوں کے لواحقین کو 10 لاکھ روپے دینے اعلان کیا گیا تھا جو دیر سے ہی سہی لیکن ادا کیا گیا۔
تاہم انہیں بین الاقوامی معاہدے کے تحت عام متاثرین سے کہیں زیادہ رقم دی گئی مگر بس شکوہ ہے تو اتنا کہ انہیں قریباً ساڑھے تین ماہ بعد رقم ملی جس وقت علاج کے لیے پیسوں کی ضرورت تھی، اُس وقت وہ رقم نہ مل سکی۔
سہیل اصغر نے حکومت سے مطالبہ بھی کیا کہ بین الاقوامی قوانین کو دیکھتے ہوئے پاکستان میں بھی رہائشی آبادیوں کے اوپر سے جہازوں کو اتارا چڑھایا نہ جائے، چونکہ اس علاقے 10 بڑے اسکول جن میں 8 سے 10 ہزار بچے پڑھتے ہیں اس لیے اگر آبادی سے اسی طرح لینڈنگز، ٹیک آ ف ہوتے رہے تو مستقبل میں بھی ایسے حادثات رونما ہوسکتے ہیں اس لیے حکومت کو ایسے حادثات کا سدباب تلاش کرنے کی ضروری ہے۔