24 جون ، 2021
وزیراعظم عمران خان نے ایک بار پھر فحاشی کے خلاف بات کی تو فحاشی پھیلانے اور اس غلاظت کا دفاع کرنے والے دیسی لبرلز کا ایک طبقہ وزیراعظم کے خلاف بھڑک اٹھا۔ کچھ لوگ ناسمجھی میں یا فحاشی پھیلانے والے میڈیا کے ورغلانے پر عمران خان کے بیان کو وہی معنی پہنا رہے ہیں جو سراسر جھوٹ اور پروپیگنڈہ پر مبنی ہے اور جس کا مقصد فحاشی کا دفاع اور پردے کی مخالفت کرنا ہے۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ نازیبا لباس کی وجہ سے جنسی جرائم بشمول ریپ کیسز ہوتے ہیں۔ خان صاحب کے کہے کو یہ معنی دیا جا رہا ہے کہ وزیراعظم نے دراصل جنسی جرائم اور ریپ کا شکار عورتوں اور معصوم بچوں کو ہی مورد الزام ٹھہرا دیا ہے۔ ایک بار پہلے بھی وزیراعظم نے پردے کے حق میں اور فحاشی کے خلاف بات کی تھی تو اسی طبقے کو جیسے آگ لگ گئی تھی۔
وزیراعظم نے جو بات کی وہ اسلامی تعلیمات کے مطابق ہے لیکن جن کو دراصل اسلام سے ہی چِڑ ہے، جو پردہ کے مخالف ہیں، فحاشی کو بُرا نہیں جانتے، نامحرم مرد اور عورت کے درمیان مرضی سے زنا کو جائز خیال کرتے ہیں بلکہ ہم جنس پرستوں کے حقوق کی بات کرتے ہیں، وہ تو پھر جو بھی ہو کسی بھی ایسی کوشش کو ناکام بنائیں گے جس کا مقصد فحاشی کا خاتمہ اور شرم و حیا کا فروغ ہو۔
جب فحاشی عام ہوتی ہے تو اس سے انسان کا دل اور دماغ کرپٹ ہوتا ہے اور بہت سے لوگ اپنی اسی ذہنیت کی وجہ سے جانور بن کر جس کو بھی وہ بےبس سمجھتے ہیں اُس کو اپنی ہوس کا نشانہ بنا ڈالتے ہیں۔ ہوس کا نشانہ بننے والا چاہے کوئی بچہ ہو، بچی یا خاتون اُس کا فحاشی سے تعلق ہونا ضروری نہیں بلکہ اُن کو تو آسان شکار سمجھ کر گندی ذہنیت والا مجرم اپنی ہوس کا نشانہ بناتا ہے اور یہی کئی بچے، بچیوں اور خواتین کے ساتھ ہوا، اس کی مثال لاہور موٹروے سانحہ ہے۔
وزیراعظم کے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ فحاشی کے دروازے بند کریں تاکہ معاشرے کے افراد میں جنسی تسکین کے لئے حیوانیت کے جذبات پیدا نہ ہوں۔ اگر وزیراعظم نے غلط کہا تو پھر مغربی ممالک بشمول امریکہ، برطانیہ، یورپ، اسکینڈے نیوین ممالک میں جنسی جرائم کیوں بہت زیادہ ہیں، بھارت اور کچھ افریقی ممالک میں ریپ کیسز کیوں بہت بڑھ گئے ہیں اور ایسا کیوں ہے کہ مسلمان ممالک دنیا میں جنسی جرائم سے متعلق کیے گئے سرویز میں بہت نیچے نظر آتے ہیں؟ پاکستان میں کئی سال سے یہ جرائم بڑھ رہے ہیں اور ان کا تعلق اُسی فحاشی و عریانی کے فروغ سے ہے جس کو ہمارا میڈیا اور لبرل طبقہ خوب بڑھا رہا ہے۔
میں نے ماضی میں اسی موضوع پر اپنے کچھ کالمز میں مغربی ممالک اور انٹرنیشنل اداروں کے سروے کو حوالہ دیا جو اس بات کو ثابت کر رہے ہیں کہ جہاں عورت کو Sex Objectکے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور جن معاشروں میں بےحیائی اور فحاشی عام ہے وہاں ریپ کیسز اور دیگر جنسی جرائم بہت زیادہ ہیں۔
ان سروے اور ایسی تحقیقی کوششوں کے بارے میں ہمارا میڈیا آپ کو کبھی کچھ نہیں بتائے گا کیوں کہ میڈیا تو خود فحاشی پھیلانے کے مشن پر گامزن ہے۔ پھر جب ہم یہ بات کرتے ہیں کہ بچوں یا عورتوں سے زیادتی کرنے والے کو سخت سے سخت سزا دی جائے اور اُسے نشانِ عبرت بنایا جائے تو یہی میڈیا اور یہی لبرلز اس کی مخالفت کرتے ہیں اور مجرم کے انسانی حقوق اور اُس کی Dignityیعنی وقار کے تحفظ کی بات کرتے ہیں۔ انسان کے روپ میں درندہ کوئی بھی چاہئے اُسے نشانِ عبرت بنا دیں لیکن فحاشی پھیلانے والے، لوگوں کے ذہنوں میں جنسی درندگی پیدا کرنے والے نہ تو فحاشی کو روکنے کی بات کرنے دیتے ہیں اور نہ ہی جنسی جرائم میں ملوث مجرم کو سرعام سزا دینے کی حمایت کرتے ہیں بلکہ اس کی مخالفت میں باہر نکل آتے ہیں۔
پردے کا فروغ اور فحاشی کا خاتمہ اسلامی احکامات میں شامل ہے، اسلام مرد ہو یا عورت دونوں کو شرم و حیا کی تعلیم دیتا ہے لیکن میڈیا اور دیسی لبرلز کا طبقہ اسلامی احکامات کے اطلاق کے خلاف ہے اور شرم و حیا کو تار تار کرنے کے لئے سب کچھ کرنے کے لئے تیار ہے۔ کبھی آپ نے میڈیا میں کوئی مہم چلتے دیکھی ہو یادیسی لبرلز کا طبقہ اس بات پر زور دیتا نظر آئے کہ معاشرہ کی تربیت کریں، افراد کی کردار سازی کے لئے اقدامات اُٹھائیں! ایسا کچھ نہیں ہوتا اور وجہ یہی ہے کہ جن کا مقصد فحاشی کا فروغ اور بُرائی کا دفاع ہو، اسلامی احکامات کی مخالفت یا رو گردانی ہو، وہی دراصل جنسی جرائم میں ملوث درندوں کے ہمدرد ہیں، وہی در حقیقت ان جرائم کا شکار عورتوں اور بچوں کے دشمن ہیں۔
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)