27 جون ، 2021
پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کے سینئر رہنماء عثمان خان کاکڑ 1961میں قلعہ سیف اللہ کےعلاقےمسلم باغ میں پیدا ہوئے، ابتدائی اور ثانوی تعلیم اپنے علاقے اور کوئٹہ میں حاصل کی، انہوں نے بہاولپور سے انجینئرنگ میں ڈپلومہ لیا اور گورنمنٹ سائنس کالج کوئٹہ سے بی ایس سی اور بلوچستان یونیورسٹی سے معاشیات میں ایم اے کیا۔ بعد ازاں 1987 میں لاء کالج کوئٹہ سے ایل ایل بی بھی کیا، وہ زمانہ طالب علمی سے ہی پشتون اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے فعال ممبر رہے۔
تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں نے پشتونخواہ میپ کے پلیٹ فارم سے باقاعدہ سیاست کا آغاز کیا، انہوں نے اپنی بردباری اور ثابت قدمی سے پارٹی میں اہم مقام حاصل کیا اور اسی بناء پر وہ پارٹی کے چیئرمین محمود خان اچکزئی کے بااعتماد قریبی ساتھیوں میں شامل رہے۔
ان کا شمار نڈر اور با اصول قوم پرست سیاستدانوں میں ہوتا تھا، پارٹی کےعلاوہ وہ سیاسی اور قوم پرست حلقوں میں صاف گو، زیرک اور سنجیدہ سیاستدان کے طور پر جانے جاتے تھے، وہ مارچ 2015 سے مارچ 2021 تک سینیٹ کے رکن بھی رہے، اس دوران وہ نا صرف صوبے بلکہ ملک کے پسے ہوئے عوام کی بھرپور آواز بنے۔
یہی وجہ ہے کہ ان کو سیاسی، قوم پرست اور عوامی حلقوں میں بھرپور پزیرائی ملی جس کا اندازہ ان کے جنازے اور تدفین میں ہزاروں افراد کی والہانہ شرکت سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے، اس کے علاوہ کراچی سے بذریعہ سڑک پہلے کوئٹہ اور پھر کوئٹہ سے ان کے آبائی علاقے مسلم باغ تک ان کی میت کا والہانہ استقبال بھی بے نظیر رہا، جگہ جگہ راستوں میں ان کی میت والی گاڑی پر پھول نچھاور کیے جاتے رہے۔
جنازے اور تدفین سے قبل مختلف سیاسی، مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں نے سیاسی اور عوامی خدمات پر عثمان کاکڑ کو زبردست خراج تحسین پیش کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ عثمان خان مظلوم پسے ہوئے طبقات کے حقوق کے علمبردار تھے، یہی نہیں انہوں نے جمہوریت کی بقاء اور آئین و پارلیمنٹ کی بالادستی کے لیے بھی بھرپور اٹھائی، وہ ایوان بالا اور دیگر عوامی فورمز پر بڑے مدلل انداز میں بلا خوف و خطراور مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر بات کرتے تھے۔
اگر عثمان خان کاکڑ کو سر پر چوٹ لگنے کی بات کی جائے تو یہ واقعہ 17جون کی شام کو پیش آیاتھا، شواہد کے مطابق عثمان خان کاکڑ تقریبا تین بجے سہ پہر کوئٹہ میں پشتونخوامیپ کے دفتر سے تقریبا تین کلو میٹرکےفاصلےپر شہباز ٹاؤن میں اپنے گھر روانہ ہوئے، دوپہر کے کھانے کےبعد وہ اپنے کمرے میں آرام کےلیے چلے گئے تاہم تقریبا پونے سات بجے وہ ڈرائنگ روم سے ملحقہ باتھ روم کےساتھ بےہوشی کی کیفیت میں اس حالت میں پائے گئے کہ ان کے پاؤں باتھ روم کے دروازے میں اور جسم کا باقی حصہ ڈرائنگ روم میں تھا۔
گھر میں موجود ان کے بھائی کی اہلیہ اور بیٹی نےگھر کے باہر موجود گارڈز اور ڈرائیور کو بلایا جنہوں نے قریب میں رہائش پزیر پارٹی لیڈر قادر آغا کی مدد سے انہیں امراض قلب کے نجی اسپتال منتقل کیا،گھرسے نجی اسپتال منتقلی کے دوران انہیں خون کی الٹی بھی ہوئی جس کی وجہ سے ان کے کپڑے خون آلود ہوگئے، سی ٹی اسکین میں ہیڈ انجری کا پتہ چلنے پر انہیں قریب ہی واقع نیورو سرجری کے دوسرے اسپتال منتقل کیاگیا جہاں ان کی سرجری کی گئی۔
معروف نیورو سرجن پروفیسر ڈاکٹر نقیب اللہ اچکزئی نے اس بات کی تصدیق کی کہ انہیں تشویشناک حالت میں رات تقریبا آٹھ بجے ان کے نجی اسپتال لایاگیا تھا، اور ان کے سر پر گہری چوٹ لگی تھی تاہم انہیں برین ہیمرج کے آثار نہیں ملے، سرجری کے دو دن کے بعد تشویشناک حالت کے پیش نظرعثمان خان کو 19 جون کو کراچی منتقل کیاگیا تاہم وہاں وہ جانبر نہ ہو سکے۔
پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق ان کی جسم کے کسی حصے پر تشدد کا کوئی نشان نہیں ملا، اس کے برعکس خاندان اور پارٹی قیات عثمان خان کی موت کے حوالے سے اعلانیہ اپنے شکوک وشبہات کا اظہار کررہے ہیں بلکہ پارٹی کےسربراہ محمود خان اچکزئی نے تو اس حوالے سے اپنے پاس چند شواہد ہونے کا بھی دعوی کر دیا، عثمان کاکڑ کی موت کے واقعہ کےحوالے سے پارٹی قائد کے اہم انکشاف کے ردعمل میں صوبائی حکام نے تحقیقات کےحوالے سےمکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔
اس حوالے سے 23جون کو ایک ہنگامی پریس کانفرنس میں دیگر صوبائی وزراء سردار عبدالرحمان کھیتران، میر ظہور احمد بلیدی اور دیگر کے ہمراہ صوبائی وزیرِ داخلہ میر ضیاء اللہ لانگو کا کہنا تھا کہ عثمان کاکڑ کی رحلت یقیناً بڑا سانحہ ہے تاہم اگر پارٹی قائدین اور پسماندہ خاندان کے پاس کوئی شواہد ہیں تو وہ سامنے لائیں، مکمل تحقیقات کی جائیں گی۔ اسی بات کا اعادہ جمعرات کو وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے بھی کوئٹہ میں سینئر صحافیوں سے بات چیت میں کیا۔
عثمان خان کاکڑ کی موت ان کے خاندان اور پارٹی کے لیے ناقابل تلافی نقصان ہے تاہم ان کا مطالبہ ہے کہ عثمان کاکڑ کی موت کی بہرحال تحقیقات ہوں تاکہ اگر واقعی ان کےساتھ ظلم ہوا ہے تو ملوث عناصر کو کیفرکردار تک پہنچایا جاسکےلیکن ان کے خاندان یا پارٹی کی جانب سے اب تک پولیس یا حکومت سے اب تک کوئی رابطہ نہیں کیا گیا ہے۔