بہن پر تشدد کرنے والے ’’جانور‘‘

حال ہی میں سوشل میڈیا پر ایک وڈیو وائرل ہوئی جس میں دو بھائی اپنی بہن کو بیہمانہ تشدد کا نشانہ بنارہے ہیں۔ ایک بھائی کے ہاتھ میں ہتھوڑا بھی تھا جس سے وہ بہن کو مار رہا تھا۔ وہاں موجود ایک بوڑھی خاتون (شاید ان تینوں کی ماں تھی) جو بھائیوں کے تشدد سے بہن کو بچانا چاہ رہی تھی، آگے بڑھی تو ایک بھائی نے اُسے دھکا دے کر گرا دیا۔

بہن کاـ ’’جرم‘‘ یہ تھا کہ اُس نے بھائیوں سے وراثت میں اپنا حصہ مانگا تھا جس پر بھائی طیش میں آ گئے اور بیہمانہ تشدد پر اتر آئے۔ اس وڈیو پر سوشل میڈیا میں شور مچ گیا جو ایک فطری بات تھی لیکن دیسی لبرلز کے ایک طبقہ نے اس وڈیو کو گھریلو تشدد کو روکنے کے لئے بنائے جانے والے قانون (Domestic Violence Bill) سے جوڑا اور  یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ اس بل کی مخالفت کرنے والے اس وڈیو میں دکھائے جانے والے ظلم کے ساتھ ہیں۔ 

جو کچھ اس وڈیو میں دکھایا گیا وہ اسلامی نقطہ نظر سے دو طرح سے غلط تھا۔ ایک تو بھائیوں نے بہن کو وراثت میں اُس کا حصہ نہیں دیا جس کا حکم ہمارا دین دیتا ہے، دوسرا اُنہوں نے بہن پر تشدد کیا جس کی اسلام تعلیم نہیں دیتا۔ 

اطلاعات کے مطابق دونوں بھائیوں کو صوبہ خیبر پختون خوا پولیس نے گرفتار کر لیا لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کیا اُنہیں اس انداز میں سزا دی جاتی ہے کہ وہ دوسروں کے لئے عبرت کی مثال بن جائیں؟ میری نظر میں ریاست کو ایسا کرنا چاہئے لیکن گھریلو تشدد کو روکنے کے نام پر مجوزہ قانون بنانے والوں کو تو خواتین اور بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنانے والوں اور اُنہیں قتل تک کرنے والے مجرموں کو مثال بنانے پر بھی اعتراض ہوتا ہے کیوں کہ باہر  والے (جن کے اشاروں پریہاں مغربی طرز کے قوانین اور پالیسیاں بنائی جا رہی ہیں اور لوگوں کو اسلام سے دور کیا جا رہا ہے) ناراض ہوتے ہیں کیوں کہ اصل مقصد خواتین اور بچوں کا نام استعمال کرکے دراصل ہمارے خاندانی نظام کو تباہ اور معاشرے میں بے راہ روی پھیلانا ہے۔ 

جو کوئی عورت پر یا بچوں پر یا کسی کمزور پر تشدد کرے اُسے ضرور پکڑیں، قید کریں، مثال بنائیں لیکن تشدد کی جو تعریف اس متازع بل میں کی گئی ہے وہ تو دراصل معاشرے کو گمراہی کے راستے پر چلانے کی سازش ہے۔ اس بل کا مقصد تشدد روکنا نہیں بلکہ اس کا اصل نشانہ ہمارا خاندانی نظام ہے، گھر کا نگران یعنی سربراہ ہے، باپ ہے، ماں ہے، بیٹا ہے، بیٹی ہے۔ بہت سے لوگوں نے تو اس بل کو پڑھا ہی نہیں اور دیسی لبرلز کے اس پروپیگنڈہ سے متاثر ہیں کہ اس بل کے مخالف عورتوں پر تشدد کرنے کے حق میں ہیں۔ نہ کسی نے بل کو پڑھا نہ ہم اسلام کے بارے میں جانتے ہیں۔ 

ہم تو کہتے ہیں اور ہمارے آئین کی بھی یہی منشا ہے کہ جو قانون بنائیں اسلامی تعلیمات کے مطابق بنائیں لیکن دیسی لبرلز تو اسلام کی بات سننے کے لئے تیار نہیں۔ اسلام نے عورت کو احترام دیا، عزت دی، حقوق دیے۔ عورت کے ساتھ چاہے وہ ماں ہو، بیٹی، بہن یا بیوی ہواسلام بہترین سلوک کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ لیکن جو کھیل یہاں کھیلا جا رہا ہے اُس کا مقصد عورت کے احترام کو ختم کرنا ہے، اُسے جنسی طور پر استحصال کا نشانہ بنانا ہے، اُسے بغاوت کے لئے اکسانا ہے، میرا جسم میری مرضی کی سوچ کو پروان چڑھانا ہے۔ 

بل کو پڑھ لیں تو پتا چل جائے گا کہ مقصد نام نہاد آزادی، بے راہ روی ہے۔ باپ، ماں، بھائی، بڑی بہن کون ہوتے ہیں کہ کسی لڑکے لڑکی کی پرائیویسی میں مداخلت کریں، اُن کی زندگی میں روک ٹوک کریں، اُن کی آزادی کو سلب کریں۔ جو کہتے ہیں کہ اس بل میں کیا خرابی ہے، وہ اس بات کا جواب دیں کہ اگر ایک باپ یا گھر کا سربراہ اپنے بیٹے یا بیٹی کو روکتا ہے کہ وہ غیر محرم لڑکیوں یا لڑکوں کے ساتھ دوستی نہیں کر سکتے، پارٹی نہیں کر سکتے، اُن کے ساتھ اکیلے میں گھوم پھر نہیں سکتے تو کیا وہ غلط کہتے ہیں؟ ایسے معاملہ پر کیا گھر کا سربراہ اپنے بیٹے یا بیٹی پر سختی کر سکتا ہے یعنی ایسی سختی جس میں مار پیٹ شامل نہ ہو لیکن پابندیاں لگا دی جائیں کہ تم کب گھر سے باہر نکل سکتے ہو وغیرہ۔ 

اگر بیٹا یا بیٹی رات دیر سے گھر آئیں تو کیا اُن پر سختی کی جا سکتی ہے؟ کیا اپنے بیٹے، بیٹی کو باپ یا کوئی گھر کا دوسرا بڑا اس بات کا پابند بنا سکتا ہو کہ وہ گھر سے نکلیں تو بتا کر نکلیں کہ کہاں جا رہے ہیں اور بغیر اجازت اُن کے گھر سے باہر نکلنے پر پابندی ہو؟ اگر کسی باپ نے اپنے بیٹے کو دوسروں کے سامنے ڈانٹ دیا اور ڈانٹ کھانے والا یہ سمجھتا ہے کہ اُس کی توہین ہو گئی تو اس بل کی نظر میں کیا باپ کے خلاف کاروائی ہو سکتی ہے ؟

کیا ایک باپ، ماں، بھائی، بڑی بہن اپنے گھر کے کسی فرد کی شک کی بنیاد پرنگرانی کر سکتے ہیں ؟ نماز، روزہ کے لئے سختی کرنا کیا تشدد ہو گا؟ دیسی لبرلز سے یہ بھی پوچھ لیں کہ کیا وہ نامحرم مرد اور عورت کے درمیان دوستی اور ساتھ رہنے کو جائز سمجھتے ہیں؟ کیا گھر کا سربراہ بیٹی پر سختی کر سکتا ہے کہ گھر سے نکلو تو حجاب میں نکلو اور اس معاملہ میں سختی (جس میں مار پیٹ شامل نہ ہو بلکہ مقصد تربیت ہو) کی جائے تو کیا بیٹی کو حق حاصل ہو گا کہ اپنے والدین یا سربراہ کے خلاف تشدد کی شکایت کر دے۔

بہرحال وزیراعظم کا شکریہ کہ اُنہوں نے اسپیکر قومی اسمبلی کو بابر اعوان کے ذریعے خط لکھ کر ہدایت جا ری کر دی ہےکہ بل کو اسلامی نظریاتی کونسل کو بھجوا دیا جائے تاکہ معلوم ہو جائے کہ کیا یہ قانون اسلامی تعلیمات کے مطابق ہے کہ نہیں؟ ویسے اس بل کے حامی کیا اس بات پر بھی راضی ہوں گے کہ تعلیمی اداروں اور میڈیا کے ذریعے معاشرے کی اسلامی اصولوں کے مطابق تربیت کی جائے تاکہ ایک طرف مرد اور گھر کے سربراہ، باپ، شوہر، بھائی وغیرہ کو سکھایا جائے کہ کیسے عورتوں اور بچوں کے ساتھ بہترین سلوک روا رکھا جائے تو دوسری طرف بیٹے بیٹی اور بیوی وغیرہ کو تعلیم دی جائے کہ اُن کو کیسے زندگی گزارنی چاہئے۔ یقین کیجئے کہ ہمارے دیسی لبرلز ایسا کرنے پر کبھی راضی نہیں ہوں گے ۔

(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

مزید خبریں :