Time 18 جولائی ، 2021
پاکستان

کراچی کیلئے کیا حل ہے؟

ملک کے تجارتی حب کراچی کے مسائل کے مستقل حل کی تلاش کیلئے پہلے ہی کافی وقت ضائع ہوچکا ہے،یہ سب سے بڑا شہر ہے لیکن آج تک کسی کو بھی اس کی صحیح آبادی کا علم نہیں ہے کیونکہ اکثریت نے 2017کی مردم شماری پر سوالیہ نشان اٹھایاہے، سیاسی وجوہات کی بنیاد پر کراچی سے اسلام آباد تک کوئی بھی یہ قبول کرنے کو تیار نہیں ہے کہ اس کی آبادی متنازعہ مردم شماری میں دکھائے جانے کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔

لہٰذا آپ اس شہر کی منصوبہ بندی کیسے کرسکتے ہیں جب حکمران طبقہ اسکی آبادی اور نشستوں کی تعداد کے مطابق وسائل دینے کے لئے تیار نہیں ،منی پاکستان کراچی سیاسی اور انتظامی دونوں طرح سے مظلومیت کا شکار ہےاس کا حل نہ تو گورنر راج مسلط کرنے میں مضمر ہے اور نہ ہی سیاسی یا غیر سیاسی ایڈمنسٹریٹر کی تقرری میں ہےبلکہ دنیا کے کسی بھی دوسرے شہر کی طرح بہت زیادہ زیر بحث 18ویں ترمیم کی روح کے مطابق کراچی کو میٹرو پولیٹن سٹی’ قرار دینے میں ہے، شروع کرنے کے لئے ، آئیے بلدیاتی انتخابات بلا تاخیر کروائیں، سیاسی جماعتوں کا بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کا انتہائی برا ریکارڈ ہےکیا وہ اس سخت حقیقت کو توڑ کر اپنے ریکارڈ کو بہتر بناسکتے ہیں کہ سویلین حکومتیں شاید ہی ایل بی پولز کا انعقاد کرتی ہیں۔

 اس میں کوئی شک نہیں کہ کراچی میں ایک سیاسی خلاء موجود ہے اور کوئی نہیں جانتا ہے کہ کون اس کو کس مقصد سے پُر کرے گا حالانکہ اس سے زیادہ فرق نہیں پڑتا جب تک ہم شہر کے بنیادی مسئلے پر توجہ نہیں دیتے۔ مجھے شک ہے کہ اس ملک کی کسی بھی سیاسی جماعت جو اہمیت رکھتی ہے اور اسے پارلیمنٹ یا سندھ اسمبلی میں نمائندگی حاصل ہے وہ میٹروپولیز جیسے نیویارک ، ممبئی ، ٹوکیو اور کراچی کے لئے دوسرے بڑے شہروں کے لئے بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ اصولوں کو اپنائے گی کیونکہ ان کے پاس سیاسی وجوہات کی بنا پر اس طرح کا فیصلہ لینے کی قوت یا خواہش نہیں ہے۔ 

اس وقت تقریبا تمام شہری ایجنسیاں اور محکمے نااہل عہدیداروں کے ساتھ اتنے کرپٹ اور آلودہ ہیں کہ اگر اس شہر کو ایک چھتری کے نیچے لایا جائے تب بھی اس کی ترقی میں کئی سال لگیں گے۔کرپشن اور نااہلی کسی بڑے ترقیاتی منصوبوں کی تاخیر کا ایک سبب ہے جو کراچی ماس ٹرانزٹ سے شروع ہو کر کراچی ایکسپریس وے ، کراچی سرکلر ریلوے سے گرین بس پروجیکٹ تک واٹر صاف کرنے کے پلانٹ ہر جگہ ہے، ہمارے پاس اب کراچی ٹرانسفارمیشن پلان موجود ہے جو نیا ہے لیکن ا انتظار کرنا اور دیکھنا ہوگا کہ منصوبہ کیسے نافذہوگا،لیکن کسی بھی سطح پر طویل مدتی سیاسی اور انتظامی حل زیربحث نہیں ہے، بڑے پیمانے پر اصلاحات کئے بغیر کراچی کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔

یہ بھی ایک افسانہ ہے کہ شہر کے لئے کبھی کوئی ’ماسٹر پلان‘ نہیں بنایا گیا جبکہ چند ایک پلان تھے اگر آپ صرف آزادی کے بعد کراچی جاتےجو اس وقت وفاقی دارالحکومت تھا تو لیکن دارالحکومت کو راولپنڈی کے قریب ایک نیا شہر اسلام آباد منتقل کرنے کے بعد اسے بھولا دیا گیا، یہ اقدام فطری طور پر زیادہ سیاسی تھا کیونکہ اس وقت کے حکمران نے ڈھاکہ بنانے سے انکار کردیا تھا ، جو اس وقت تک دوسرا دارالحکومت تسلیم کیا جاتا تھا، سیاسی، ثقافتی اور انتظامی طور پر شہر کو تباہ کرنے کے دیگر ʼمنصوبوں پر ماسٹر پلانز بنائے گئے لیکن ان پر قابو پالیا گیا، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کراچی بہت بڑی تعداد میں آنیوالے تارکین وطن کا شہر بن گیا، اس میں کوئی حرج نہیں تھا کیونکہ لوگ نوکریوں اور اچھی روزی کی تلاش میں بڑے شہروں میں آتے ہیں لیکن پھر اسی کے مطابق شہروں کی منصوبہ بندی کی جاتی تھی، یہاں ، ماسٹر پلانز سیاسی مقاصد کے ساتھ ’سیکریٹ پلان‘ مین تبدیل ہو گیا اور یوں کم لاگت والی رہائشی سکیموں اور ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی بجائے ’’ کچھی آبادیاں ‘‘ قائم کردی گئیں۔

مثال کے طور پراورنگی ٹاؤن ناظم آباد یا نارتھ ناظم آباد کی طرح قائم کیا جاسکتا تھا لیکن اس کو ایشیا کی سب سے بڑی کچھی آبادی بنا دیا گیااور اسی طرح دوسری جگہوں پر آبادیاں قائم کر دی گئیں ۔

کراچی کو متعدد شہری ایجنسیوں میں تقسیم کر دیا گیا اور آخر میں کراچی کا ʼمیئر صرف شہر کے 34 فیصد حصے کے لئے فیصلہ سازی کا اختیار رکھتا۔یہ بھی ایک المیہ ہے کہ کراچی کے عوام کے لئے موجودہ سہولیات پبلک ٹرانسپورٹ جیسے کراچی ٹرانسپورٹ کارپوریشن ، کے ٹی سی اور اس کے بڑے سائز کے بس بیڑے ، سرکلر ریلوے نظام اور یہاں تک کہ ٹرام کو بھی ختم کر دیا گیا ۔ 

کراچی کو دنیا کے دیگر شہروں کی طرح ایک جدید اور ترقی یافتہ شہر بنانے کی بجائے بظاہر اسے بھولا دیا گیا جیسے اسے سزا دی گئی ہو اسے مختلف سیاسی ، نسلی اور فرقہ واریت جیسے ʼتنازعات میں ڈال دیا گیا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ ʼانڈرورلڈ اور دہشت گردی کے نیٹ ورکس کیلئےجرائم سنڈیکیٹ کا مرکز بھی بن گیا۔

دو افغان جنگوں کے نتیجے میں سب سے بڑا شہر کلاشنکوف اور منشیات کا ایک بہت بڑا بازار بن گیا، افغانستان میں بدلتے ہوئے سیاسی منظر نامے اور اب امریکہ کے نکلنے کے بعد ہو سکتا ہے ہمیں کراچی پر بھی اس کے اثرات دیکھنے کو ملیں، یہ بھی کہاہے جاتا ہے کہ کراچی کو کوئی نہیں اپناتا اور شہر کا کوئی مالک نہیں۔ 

مسئلہ یہ ہے کہ ہر ایک نے شہر کواپنے لئے پیسے کمانےکا ذریعہ بنایا اور پیسوں اور جائیدادوں سے بھرے ہوئے بریف کیسوں کے ساتھ اس کو چھوڑ دیا،شہر کی اپنی متوازی معیشت ہے کیونکہ اس کی متعدد سڑکیں ، سروس سڑکیں تک فروخت ہوچکی ہیں،وہ لوگ جو کبھی کراچی کے ’مالک‘ ہونے کا دعویٰ کرتے تھے ، اب وہ دوہری شہریت کے ساتھ بیرون ملک جائیدادیں رکھتے ہیں،مجھے حیرت ہے کہ پاکستان معاشی طور پر کس طرح ترقی کرسکتا ہےجب حکمرانوں نےمعاشی مرکزکو ہی ختم کردیا ،ماضی میں جو بھی انفراسٹرکچر موجود تھا وہ پہلے ہی ختم ہوچکا ہے۔

مثال کے طور پر پاکستان اسٹیل بہت سے طریقوں سےترقی کی راہ پر گامزن تھا ، اسی طرح کراچی پورٹ بھی تھا،ہم دونوںکو ڈویلیپ نہیں کر سکے،اس کے علاوہ ہم صنعتی علاقوں کی تعمیر و ترقی میں بھی ناکام رہے اور اب بہت سے صنعتکار ملک چھوڑ کر بیرون ملک مقیم ہیں ،پاکستان کی ترقی کا تعلق کراچی سے ہے ، جبکہ جدید شہر اور ترقی پسند نقطہ نظر کو ختم کردیا گیا ہے اور اسے معمول پر آنے میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔مجھے اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اسے اس کے سیاسی نقطہ نظر کی سزا دی گئی ہے، اسےطلباء کی تحریک سے لے کر مارشل لا تک اور شہری حکمرانوں کی مسلسل تحریکوں میں اختلاف رائے ظاہر کرنے اور قائدانہ کردار ادا کرنے کی سزا دی گئی ہے۔

2018 میں ، پہلی بار کراچی نے اس پارٹی کو ووٹ دیا جس کی اب مرکز میں حکومت بھی ہے یعنی پاکستان تحریک انصاف ، پی ٹی آئی کے 20 میں سے 14 ایم این اے اور 24 ایم پی اے ہیں، مرکز اور سندھ کے مابین الزام تراشی کا کھیل شہر کے لئے کوئی نئی بات نہیں ہے اور آخر میں دونوں کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا،لیکن  یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی ، پی پی پی کی سندھ میں حکومت ہےاور سندھ اسمبلی میں ایک بڑی جماعت ہونے کی وجہ سے صوبائی دارالحکومت کی ترقی کی سب سے بڑی ذمہ داری اسی پر عائد ہوتی ہے۔ 

پی پی 18 ویں ترمیم لے کر آئی اور جب بھی 18ویں ترمیم کے خلاف کوئی خبریں یا قیاس آرائیاں سنتے ہیں تو اس کا دفاع بھی کرتے ہیں،لیکن ، کیا انہوں نے صوبے سےاختیارات نچلی سطح تک یعنی بلدیاتی اداروں کو منتقل کر دیئے یا ماضی میں جو بھی طاقت حاصل کی اسے منتقل کر دیا،یہ بھی ایک غلط فہمی ہے کہ کراچی نے کبھی پیپلز پارٹی کو ووٹ نہیں دیا لیکن ، یہ سچ ہے کہ 1970 سے 2018 تک ایم کیو ایم کے سوا کسی بھی پارٹی کا شہر پر اتنا کنٹرول نہیں تھا جتنا ان کا تھا لیکن لوگوں نے پیپلز پارٹی کو بھی ووٹ دیا تھا۔

 1979 اور 1983 میں بلدیاتی انتخابات میں ڈپٹی میئر سلاٹ پیپلز پارٹی کے پا س رہے، 1979 میں ، اس نے میئر کے انتخابات کو تقریباجیت لیا تھا اگر ضیاء الحق کی حمایت یافتہ انتظامیہ نے دو کونسلروں کو اغوا نہ کیا ہوتا ، پیپلز پارٹی اپنی خراب سیاسی حکمت عملی اور شہری سندھ کی طرف رحجان کی وجہ سے کراچی کو ہار گئی،ایم کیو ایم نے شہر کی ترقی میں اپنے بہترین چانس کوضائع کیا وہ سیاسی کمزوری کی وجہ سے بھی ناکام رہے خاص طور پر 2002 سے 2007 تک ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کے اتحادی رہے۔ تقریبا ہر اتحادی حکومت کا حصہ ہونے کے باوجود وہ اپنے اندرونی عدم تحفظ سے باہر نہیں آسکے اور کراچی کو واقعتا ‘ایک’ میٹرو پولیٹن سٹی ‘بنانے میں ناکام رہے، تمام عملی مقاصد کے لئے شہر اب غیر منظم اور ناقابل انتظام ہے،کیا وہ لوگ جو مرکز میں اور سندھ میں اقتدار میں ہیں ، اس کو گورننس اور رہنے کے قابل بنا سکتے ہیں؟ 

اگر کچھ اور نہیں ، تو یہ شہر جو بقیہ پاکستان کو 75 فیصد ، سندھ کو 85 فیصد سے زیادہ آمدنی دیتا ہے ، کم از کم اچھی سڑکیں ، ایک سے زیادہ نقل و حمل ، صاف پانی ، نکاسی آب کے مناسب نظام کی بجائے بڑے پیمانے پر عوامی آمد و رفت کا مستحق ہے،لیکن ، اس طرح کی نااہلی اور بدعنوان عہدیداروں اور بیوروکریسی میں ابھی کئی سال لگ سکتے ہیں۔بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے شہر کی صورتحال افسوسناک ہے۔

مزید خبریں :