Time 16 اگست ، 2021
بلاگ

بڑے بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے!

افغان طالبان کابل کے قریب پہنچ چکے۔ افغانستان کے دارالحکومت کے علاوہ تقریباً ہر اہم شہر پہلے ہی طالبان کے قبضہ میں آچکا۔ جس تیزی سے طالبان افغانستان پر قبضہ کرتے جا رہے ہیں، اُس کو دیکھا جائے تو اب کسی بھی وقت کابل پر ان کا قبضہ ہوجائے گا جن کی حکومت کو آج سے بیس سال قبل امریکا نے تقریباً پوری دنیا کی مدد سے ختم کیا تھا اور یہ سمجھا جا رہا تھا کہ طالبان اب تاریخ کا حصہ بن جائیں گے۔

دنیا حیران و پریشان ہے کہ افغان طالبان میں ایسا کیا تھا کہ اُنہوں نے امریکا نیٹو فورسز، بھارت سمیت سب کو زیر کر دیا اور زیر بھی ایسے کیا کہ بہت سے وہاں ذلیل و خوار ہوئے۔ اس ذلت کا سب سے بڑا سامنا امریکا اور بھارت کو کرنا پڑ  رہا ہے۔کھربوں ڈالرز لگائے گئے، چار لاکھ کی افغان فوج کھڑی کی گئی، پہلے حامد کرزئی اور پھر اشرف غنی کے ذریعے افغانستان کو امریکا و بھارت کے مفاد کیلئے استعمال کرنے کا بڑا کھیل شروع کیا گیا‘ جس کا ایک اہم نشانہ پاکستان بھی تھا لیکن طالبان نے سب کھیل تباہ کر دیا۔

افغان فوج ریت کی دیوار ثابت ہو رہی ہے، وار لارڈ جنرل عبدالرشید دوستم کی طرح بڑے بڑے طالبان مخالف جنگجو ملک سے فرار ہو رہے ہیں، کئی چھپ گئے، بیشتر نے طالبان کے سامنے ہتھیار ڈال دیے اور اُن کی پناہ میں آگئے، افغان سیکیورٹی فورسزکسی ایک مقام پر بھی طالبان سے لڑتی دکھائی نہ دیں بلکہ جہاں بھی اُن کا طالبان سے سامنا ہوتا ہے وہاں ہتھیار ڈال دیے جاتے ہیں۔

پاکستان مخالف افغان صدر کرزئی کے پاوں بھی اکھڑ چکے، اب تو بین الاقوامی میڈیا بھی اشرف غنی کے مستعفی ہونے اور ملک چھوڑ کے بھاگنے کی خبریں دے رہا ہے۔حکومت کے کئی اہم اہلکار پہلے ہی ملک چھوڑ چکے۔ حالت یہاں تک پہنچ چکی کہ اپنے آپ کو دنیا کی سب سے بڑی طاقت سمجھنے والا امریکا اب طالبان کی منتوں پہ اتر آیا ہےکہ کابل میں موجود امریکیوں کو نکلنے کا محفوظ رستہ دیا جائے۔ بھارت جو امریکا کی آشیر باد سے علاقے کا چوہدری بننے کے خواب دیکھ رہا ہے اور جس نے گزشتہ 20 سال کے دوران افغانستان کی کٹھ پتلی کرزئی اور اشرف غنی حکومتوں کے دوران اور امریکا کی مکمل حمایت سے افغانستان کی سرزمین کو پاکستان میں دہشتگردی کے لیے خوب استعمال کیا۔ 

امریکا و بھارت کی مثال تو ’’بڑے بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے‘‘ والی ہو گئی۔ بھارت نے افغانستان میں موجود اپنے ایک درجن سے زیادہ قونصل خانے بند کر دیے۔ یاد رہے کہ یہی قونصل خانہ پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے اڈوں کے طور پر استعمال ہوتے رہے اور ہو رہے ہیں۔ امریکا و بھارت کے کھربوں ڈالرز ڈوب گئے، اُن کے تمام شر انگیز کھیل طالبان نے زیرو کر دیے۔ اب دیکھنا ہے کہ کابل کو کتنے دن تک طالبان سے بچایا جا سکتا ہے؟ ذلت کی شکار قوتیںاسی دوران خوب پروپیگنڈہ بھی کر رہی ہیں۔غنی اور مودی کا اب بھی سارا زور یہ جھوٹ پھیلانے پر ہے کہ اس سارے کھیل کے پیچھے پاکستان ہے، الزام لگایا جا رہا ہے کہ پاکستان طالبان کی حمایت کے لیے افغانستان میں جنگجو بھیج رہا ہے۔

اگر بھارت اور افغان حکومتوں کا پرپیگنڈہ سچ ہے تو کیا پاکستان نے افغان سیکیورٹی فورسز کو ہر جگہ ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیا۔ بھارت کو غنی سے اتنی ہمدردی ہے تو اپنے قونصل خانے کیوں بند کیے؟ امریکا و نیٹو نے مزہ چکھ لیا، اب بھارت اپنی فوج افغانستان بھجوا کر غنی حکومت کی مدد کیوں نہیں کرتا اور جو پاکستانی جنگجو افغانستان جا رہے ہیں اُنہیں پکڑ کر دنیا کے سامنے کیوں نہیں لایا جا رہا؟ بھارت اور غنی و کرزئی جیسے افغان، جنہوں نے بیرونی افواج کی اپنے ملک پر قبضہ کی حمایت کی‘ اُن کی تکلیف تو سمجھ آتی ہے لیکن نہیں معلوم ہمارے پاکستان میں ایک چھوٹا سا طبقہ بھارت و امریکا کی ذلت اور پاکستان دشمن غنی کی کٹھ پتلی حکومت کی شکست پر اتنا پریشان کیوں ہے؟ یہ لوگ نجانے کیسی خفگی میں ہیں کہ بعض اوقات وہ زبان بولتے ہیں جو غنی کی ہے‘ جو مودی کی ہے اور جس کا نشانہ پاکستان ہے۔ 

بھارت نے کرزئی و غنی حکومتوں کی مدد اور امریکا کی سپورٹ سے پاکستان میں خوب دہشت گردی کروائی۔ ان پاکستان دشمن قوتوں کو اگر طالبان نے ذلیل کر دیا، اُن کے کھیل کو تباہ برباد کر دیا تو اس پر ہمیں کیوں پریشان ہونا چاہیے۔ اب تک طالبان کی طرف سے افغانستان میں جو قبضہ کیا جا رہا ہے وہ عمومی طور پر پر امن رہا اور خون خرابہ دیکھنے کو نہیں ملا۔

طالبان کی طرف سے یہ کہا جا رہا ہے کہ وہ نہ کوئی عمارت گرائیں گے، نہ ہتھیار ڈالنے والوںسے کوئی زیادتی کریں گے۔ اچھا ہو اگر افغانستان میں مسلمان مسلمان کا خون نہ بہائے۔ خون خرابے کے بغیراگر کابل بھی طالبان کے قبضہ میں آ جاتا ہے اوروہاں موجود غیر ملکیوں اور سفارت کاروں کو بھی باہر نکلنے کا محفوظ رستہ دیا جاتا ہے یا اُن کا بھی تحفظ کیا جاتا ہے تو اس سے طالبان اگر افغانستان میں اپنی حکومت دوبارہ قائم کر لیتے ہیں تو ممکن ہے کہ اس سے اُن کی حکومت کو دنیا کے مختلف ممالک تسلیم کرنا شروع کر دیں۔

(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔