Time 23 اگست ، 2021
بلاگ

عورت جو مرضی کرے کا نیا بیانیہ!

جب سے افغانستان پر طالبان نے دوبارہ کنٹرول سنبھالاہے پاکستان کے میڈیا اور ہمارے لبرل طبقہ کو افغان خواتین کی بڑی فکر ہے لیکن اپنے گھر پاکستان کی خبر نہیں جہاں آئے دن خواتین کے ساتھ بدسلوکی کے ایسے ایسے واقعات رونما ہو رہے کہ انسانیت شرما جائے۔

سوال اٹھائے جا رہے ہیں کہ نجانے طالبان افغانستان میں خواتین کے ساتھ کیسا سلوک روا رکھیں گے، اُن کو حقوق ان کے ملیں گے، کیا وہ اسکول جا سکیں گی، اُنہیں باہر نکلنے کی اجازت ہو گی، نوکری کر سکیں گی۔

کوئی ان سے پوچھے پاکستان میں جو خواتین گھر سے نکلتی ہیں اُنہیں آپ نے کیا تحفظ دیا؟ زینب جیسی کئی سو بچیوں بچوں کے ساتھ بدسلوکی کی گئی اُنہیں درندگی سے مار بھی دیا گیا، یہاں تو موٹر وے پر سفر کرتی خاتون کو اُس کے بچوں کے سامنے زیادتی کا نشانہ بنا دیا گیا

نور مقدم کو بہیمانہ انداز میں ریپ کے بعد قتل کر دیا گیا، عثمان مرزا کیس میں ایک خاتون کو برہنہ کر کے اُس کی وڈیو بنائی گئی، لاہور مینار پاکستان کے سائے تلے چار سو افراد نے ایک خاتون کی سرعام بے حرمتی کی، لاہور ہی میں چنگ چی موٹرسائیکل رکشے پر سفر کرتی ایک خاتون کو ایک نوجوان نے بوسہ دے دیا اور دیکھنے والے ہنستے رہے۔

کسی ایک کیس میں کسی مجرم کو نشان عبرت بنایا گیا ہو تو مجھے بتائیں۔ اﷲ نہ کرے ایسے واقعات کسی کے ساتھ رونما ہوں لیکن ایک بات سن لیں اگر خدانخواستہ ایسا کوئی واقعہ افغانستان میں ہو گیا تو دیکھیے گا کہ طالبان اُس مجرم کو ایسے نشان عبرت بنائیں گے کہ کوئی دوسرا ایسا جرم کرنے کی جرأت نہیں کرے گا۔ طالبان کے آنے کے ساتھ، جبکہ ابھی اُن کی حکومت قائم بھی نہیں ہوئی تو افغانستان میں جرائم پیشہ افراد ڈر گئے۔

جیو کے سینئر رپورٹر اعزا زسید جو آج کل افغانستان میں ہیں‘ اُنہوں نے وہاں موجود اپنے افغان ڈرائیور کے حوالے سے لکھا کہ طالبان کے آتے ہی امنِ عامہ کا مسئلہ حل ہو گیا، طالبان کے آنے سے قبل شام کو سفر نہیں کر سکتے تھے مگر اب بے فکری سے سفر کرتے ہیں۔

حال ہی میں طالبان کے کابل پر قبضہ سے قبل کسی صوبہ میں جو طالبان کے کنٹرول میں آ چکا تھا وہاں دو افراد کو شہر کی اہم شاہراہ کے پل پر پھانسی دے دی گئی۔ سوشل میڈیا کی اطلاعات کے مطابق جن دو افراد کو سرعام پھانسی دی گئی وہ ایک بچے کے اغوا میں ملوث تھے۔

یاد رکھیں جرائم کی روک تھام کے لیے ایسے ہی فوری انصاف کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں تو برسہابرس کیس چلتے ہیں اور اگر کسی کیس میں کسی مجرم کو سزا بھی ہو جائے تو سرعام پھانسی نہیں دی جاتی بلکہ الٹا انسانی حقوق والے اور میڈیا چیخ اُٹھتے ہیں کہ کسی کو سرعام سزا مت دیں یہ تو ظلم ہے، وہ تو یہ بھی کہنے لگتے ہیں کہ سر عام سزا دینے سے تو مجرم کا ’’وقار‘‘ مجروح ہو گا۔

بلکہ یہاں تو پیپلز  پارٹی سمیت ابیرونی فنڈنگ سے چلنے والی این جی اوز  والے تو سرے سے ہی سزائے موت کے خلاف ہیں اور کہتے ہیں کہ سزائے موت کو ہی ختم کر دیا جائے۔ ابھی تک افغانستان سے جو خبریں موصول ہو رہی ہیں وہ بھی خاصی حوصلہ افزا ہیں۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق خواتین کو پردے کے ساتھ باہر نکلنے ، اسکول کالج جانے اور ملازمت کرنے کی اجازت ہے۔

میڈیا میں بھی خواتین کام کر سکتی ہیں۔ پاکستانی میڈیا کے افراد جو افغانستان میں موجود ہیں اُن کی خبروں کے مطابق، افغانستان میں حالات تیزی سے معمول پر آ رہے ہیں، باپردہ خواتین باہر نظر آتی ہیں۔

ابھی تک طالبان جو جو کچھ کر رہے ہیں اُس پر ہمارے لبرل بھائی بھی حیران ہیں، اُنہیں کچھ مل نہیں رہا کہ کیسے طالبان پر برس پڑیں۔ ماضی کے برعکس کابل پر قبضہ کرنے پر نہ کسی کو پھانسی پر لٹکایا، نہ ہی خواتین پر اسکول جانے اور نوکریوں پر پابندیاں لگائیں الٹا اپنے تمام مخالفین کو عام معافی دے دی، نہ کوئی تشدد نہ کسی پر کوڑے برسائے، خواتین کو پردے کے ساتھ کام کرنے کی اجازت دے دی اور اپنے سخت ترین مخالفین سے ملاقاتیں کی جا رہی ہیں تاکہ سب سے حکومت بنانے کے عمل میں مشاورت کی جائے۔

پاکستان میں ایک اور عجیب بیانیہ بنایا جا رہا ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ عورت چاہے جس لباس میں باہر نکلے، جو مرضی کرے اس پر کسی کو کوئی اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں ہونا چاہیے۔ نہیں جناب، ایسا ایک اسلامی ملک میں بالکل ممکن نہیں ۔ عورت ہو یا مرد ،وہ پابند ہیں کہ جب گھر سے نکلیں تو شرم و حیا کا خیال رکھیں۔ مرد کے لیے حیا اور عورت کے لیے پردے کا حکم تو اسلام دیتا ہے جس کو بدلا نہیں جا سکتا۔

اس کے لیے ریاست معاشرے کی تربیت کرے ، عورت پر باہر نکلنے پر پردے کی پابندی لگائے اور ایسے مرد جو خواتین کے ساتھ بدسلوکی، زیادتی، چھیر چھاڑ کرتے ہیں‘ اُنہیں سر عام سزائیں دیں۔ پھر دیکھیں نتیجہ کتنا حیران کن ہو گا اور خواتین کے خلاف جرائم کیسے رُکتے ہیں۔

(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔