Time 25 اگست ، 2021
بلاگ

جب ’ٹک ٹاک‘ نہیں تھا

یہ بات ہے 1963 کی جب ’ٹک ٹاک‘ تو کیا الیکٹرونک میڈیا کا بھی تصور نہیں تھا۔ لاہور کے منٹو پارک میں ہزاروں افراد بہت دور کھڑی خواتین پر ٹوٹ پڑے۔ کپڑے پھاڑ دیئے اور وہاں سے چل دیئے۔ دوسرے دن اخبارات میں خبر چھپی اور بس۔ یہ بات شاید مجھے کبھی پتا نہ چلتی اگر انہی افراد میں سے ایک نے مینار پاکستان کے واقعہ کے بعد مجھے فون کر کے یہ اعتراف نہ کیا ہوتا کہ آج سے 58 سال پہلے وہ بھی اس گناہ میں شریک تھا اور آج تک شرمندہ ہے۔

’’مظہر صاحب، آج ایک اعتراف کرنا چاہتا ہوں۔ مینار پاکستان جیسا ایک واقعہ منٹو پارک میں بھی ہوا تھا۔ وہ نوجوانی کا زمانہ تھا، ہم بھی وہاں ایک تماشا دیکھنے پہنچ گئے۔ ایک سائیکل سوار تین دن سے مسلسل چکر لگا رہا تھا غالباً کوئی ریکارڈ بنانا چاہتا تھا۔ وہ آخری دن تھا اور ایک ہجوم تھا جو جوش و خروش سے نعرےلگا رہا تھا۔ جیسے ہی شو ختم ہوا بڑی تعداد میں لوگ خواتین کی جانب بڑھے اور پھر جس کا جو بس چلا اس نے وہ کیا۔ بدقسمتی سے میں بھی اس ریلے میں بہہ گیا۔ گھر جا کر سوچا میں نے یہ کیا کیا اور آج تک شرم آتی ہے‘‘۔

مشرقی پاکستان کی داستانیں تو ہم نے سنی ہوئی ہیں۔ جنگ ہو یا امن عورت ہمیشہ حالتِ جنگ میں ہی رہتی ہے۔ ہر وقت اپنا دفاع کرنا پڑتا ہے، بازار ہوکہ سینما۔بھٹو صاحب کا زمانہ آگیا۔

 اس وقت صرف سرکاری ٹیلی ویژن چینل ہوا کرتا تھا نہ کوئی سوشل میڈیا نہ کوئی نجی چینل مگر عورت پھر بھی نشانہ۔ پرانے لوگوں کو یاد ہوگا کراچی میں ہاکس بے پر پکنک پر جانے والی طالبات کیساتھ درجنوں نوجوانوں نے جو کچھ کیا اس کی بھی بس خبر چھپی۔

مارشل لا آ گیا اور وہ بھی جنرل ضیاء الحق کا۔ اب تو پرنٹ میڈیا پر بھی پابندی تھی کہ ایک روز نواب پور کے واقعہ کی خبر نظر سے گزری، تفصیلات سامنے آئیں تو رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ علاقہ کے جاگیردار نے مردوں کی حکم عدولی کی سزا ان کی عورتوں کو دی۔ انہیں برہنہ کرکے سرعام گھمایا گیا۔ کسی کی جرات نہیں تھی کہ اُنہیں روک سکتا۔

ایسےواقعات پر کچھ کا خیال ہے کہ سرعام پھانسی دے دی جائے، کچھ کہتے ہیں ایسے مجرموں کو نامرد بنا دیا جائے۔ ان سب باتوں سے خوف تو پیدا ہو سکتا ہے سوچ نہیں بدل سکتی۔ ہمیں اس سے کیوں ڈر لگتا ہے کہ بچوں اور بچیوں کو اسکول میں اور گھروں میں بتایا جائے کہ اگر کوئی غیر تم کو غلط انداز سے ٹچ کرے تو فوراً ماں باپ کو بتاؤ۔سعادت حسن منٹو ایک حقیقت نگار تھا۔ ایک طبقہ کو ان کے افسانے اس لئے برے لگتے تھے کہ اس نے پورے معاشرے کو بے لباس کر دیا تھا۔

زمانہ جہالت میں لوگ لڑکی پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کر دیا کرتے تھے۔ اب عہدِ جدید ہے تو عورت کی تذلیل کی جاتی ہے۔ ریپ کیلئے بھی گواہ اسے ہی لانے پڑتے ہیں۔ جب ہماری مجموعی سوچ اس کے بارے میں یہی ہوگی تو وہ مظلوم ہوتے ہوئے بھی ملزم ٹھہرائی جائے گی۔ تھانہ سے لے کر عدالت تک ایسے ایسے سوالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ 

اگر صحافت کے دوران میں نے خود ایسے مقدمات نہ سنے ہوتے تو شاید نہ لکھتا۔ہم تو وہ معاشرہ ہیں جہاں بانی پاکستان کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح میدان سیاست میں آئیں تو کیا کچھ نہیں کیا گیا۔ پہلے وزیراعظم کی اہلیہ بیگم رعنا لیاقت علی خان جنہوں نے خواتین کی تعلیم کیلئے خدمات انجام دیں، سخت تنقید کی زد میں رہیں۔ بیگم نصرت بھٹو سیاسی جدوجہد کی علامت بنیں تو ہوائی جہاز سے اُن کی ڈانس کرتے ہوئے تصاویر پھینکی گئیں۔ بےنظیر بھٹو کے بارے میں جو ریمارکس ان گناہ گار کانوں نے 1988 کے ایک جلسے میں سنے یقین نہیں آتا کہ ایسے لوگ آج بھی ہمارے رہنما ہیں۔

یہی نہیں وزیراعظم کی پہلی اہلیہ جمائما خان کو کس قسم کی تنقید کا سامنا کرنا پڑا کہ اُنہیں ملک ہی چھوڑنا پڑ گیا۔ موجودہ خاتونِ اول جو سیاست سے دور رہتی ہیں، ان کو بھی نہیں بخشا جاتا۔ دوسری طرف مریم نواز پر سیاسی تنقید تو ہو سکتی ہے اور ہونی بھی چاہئے مگر ان کی ذات کے بارے میں حال ہی میں آزاد کشمیر کے الیکشن میں جو ریمارکس دیئے گئے وہ انتہائی شرم ناک تھے۔

 حیرت ان جملوں پر نہیں بلکہ اس کے دفاع میں پڑھے لکھے وزیروں کے بیانات سے ہوئی۔ان سب میں قدر مشترک عورت ہونا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب اخبارات میں لڑکیوں کو رپورٹنگ کی غرض سے نہیں بھیجا جاتا تھا۔ انہیں یا توڈیسک پر نوکری ملتی تھی یا پھر میگزین میں۔ وقت کے ساتھ اندازِ فکر میں تبدیلی آئی اور آج بڑی تعداد میں لڑکیاں نہ صرف رپورٹنگ کر رہی ہیں بلکہ خبریں بھی پڑھتی ہیں، شو بھی کرتی ہیں اور اس دوران ان نظروں کا سامنا بھی کرتی ہیں جو کبھی کبھی انہیں خوف میں بھی مبتلا کر دیتی ہیں۔ کیا ہمیں یاد نہیں 2014 میں دھرنوں کے دوران کیا ہوا تھا۔

میڈیا نے اس سوچ کو بدلنے میں کہ پاکستان کی نصف سے زیادہ آبادی کو بھی وہی حقوق ملنے چاہئیں جو مردوں کو حاصل ہیں اپنا کردار تو ادا کیا مگر اپنے اندر کی خرابیوں کو دور کرنے کی کوشش نہیں کی۔ ہمیں خود طے کرنا ہوگا کہ ’ریڈ لائن‘ کیا ہوتی ہے۔

قوانین اور ضابطہ اخلاق بھی ضروری ہے مگر ہمارا کیمرہ تو ایان علی کے کیس پر کم اور جسم پر زیادہ فوکس کرتا ہے جس سے اس سوچ کی عکاسی ہوتی ہے کہ ’بیٹی نہیں بیٹا چاہئے۔‘

گیٹر اقبال پارک(سابقہ منٹو پارک) والے واقعہ پر 58سال بعد ہی سہی کسی شخص میں اتنی جرات تو پیدا ہوئی کہ اس نے اعتراف کیا ورنہ تو وہ صرف واقعہ سنانے پر ہی اکتفا کرتا اور بات ختم ہو جاتی۔

میرا صرف معاشرے سے یہ سوال ہے کہ مینار پاکستان پر جو لوگ تماشا دیکھ رہے تھے، ویڈیو بنا رہے تھے کیا وہ ٹھنڈا گوشت تھے؟ کیوں نہیں کوئی مرد ان نامردوں کو روک سکا، ان نامردوں کو آپ کیا نامرد بنا کر سزا دیں گے؟


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔