29 ستمبر ، 2021
صحافیوں کے احتجاجی دھرنے کا دوسرا دن تھا مگر وہ مجھے کہیں نظر نہیں آرہا تھا۔ میں بھی حیران تھا کہ راولپنڈی، اسلام آباد میں مظاہرہ ہو، ریلی ہو، پولیس کی رکاوٹیں ہٹانا ہوں، لاٹھی چارج ہو اور وہاں سی آر شمسی نہ ہو ایسا ممکن نہیں۔
ابھی میں کمر سیدھی کرنے کے لئے اٹھا ہی تھا کہ میری نظر اس پر پڑی۔ وہ کسی نجی ٹی وی کو انٹرویو دے رہا تھا۔ میں نے قریب کھڑی فوزیہ شاہد سے کہا، ’’یہ میرا کام انہوں نے کہاں سنبھال لیا‘‘۔ اس کے چہرے پر مسکراہٹ آئی اور ابھی میں یہ کہہ کر پلٹا ہی تھا کہ پیچھے سے آواز آئی، ’’نہ انٹرویو تو ہی دے سکتا ہے‘‘۔ یہ کہتے ہوئے اس نے تمام SOPs کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مجھے گلے لگا لیا۔ مجھے کیا پتا تھا کہ یہ اس کی آخری ’’جھپی‘‘ ہوگی۔
میں نے کہا بھائی جان SOP کا خیال رکھیں، کہنے لگا، ’’یار اب جدوجہد کے کتنے ساتھی رہ گئے ہیں۔ جب بھی کسی ایسے کو دیکھتا ہوں تو سب کچھ بھول جاتا ہوں‘‘۔ اس دن وہ ہشاش بشاش لگ رہا تھا گمان تک نہیں تھا ایسے اچانک خبر آئے گی۔
وہ ہر تحریک کے لئے ایک شمس تھا، روشنی کی وہ کرن جو دم توڑتے جذبوں کو دوبارہ جوان کردے۔میڈیا کے کارکنوں کی نمائندہ تنظیموں پی ایف یو جے اور اپینک کے سابق صدر عبدل حمید چھاپرہ مرحوم اس کو ہمیشہ اس کے پورے نام چوہدری رحمت اللہ شمسی کہہ کر پکارتے تھے مگر وہ ہمیشہ سی آر شمسی کے نام سے ہی مشہور رہا۔
1976 میں صحافت کے شعبہ سے اپنے کیرئیر کا آغاز کیا اور زندگی کے آخری لمحوں تک آزادیٔ صحافت اور کارکنوں کے حالات کار کی لڑائی لڑی۔
شمسی سے میری کئی یادیں وابستہ ہیں ہم نے ان گنت اجلاسوں میں شرکت کی کبھی اتفاق اور کبھی اختلاف رہا۔ کراچی سے لے کر خیبر تک شب و روز ساتھ گزارے ہیں۔ ساری ساری رات بحث مباحثہ۔ وہ ہر وقت جدوجہد کے لئے تیار رہتا تھا جبکہ میرا رجحان تنظیم سازی پر زیادہ ہوتا تھا۔
مجھے آج بھی یاد ہے اس کی وہ خوشی جب 2006میں اسلام آباد میں پی ایف یو جے کی تاریخ میں پہلی بار مرکزی سیکرٹریٹ قائم ہوا۔ ’’یار مظہر، تو نے تو کمال کردیا‘‘۔ میں نے کہا، ’’شمسی صاحب مرکز ہونا بہت ضروری ہے‘‘۔ اسے یہ جان کر بھی خوشی ہوئی جب پچھلے سال PFUJ کی تاریخ پر پہلی بار کوئی کتاب انگریزی اور اردو زبان میں شائع ہوئی۔
1978کے بعد 2013میں یونین کی دوسری بڑی تقسیم نے ہم دونوں کو ہی اداس کردیا تھا۔ بہت کوشش بھی کی کہ نثار عثمانی اور منہاج برنا کی جدوجہد کو ماننے والے، ان کا نعرہ الگ الگ نہیں ایک ساتھ لگائیں۔شمسی کے ساتھ سب سے یادگار وقت 2007 کی تحریک کے دوران گزرا۔ اس نے وکیلوں کی تحریک میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور پھر جب 3؍نومبر کو جنرل مشرف کی حکومت نے ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان کیا اور کئی ٹی وی شوز پر پابندی لگادی تو اس کے خلاف تحریک میں بھی وہ آگے آگے تھا۔
میں اس وقت PFUJ کا سیکرٹری جنرل اور ہما علی سید صدر تھے۔ ہم نے باہمی مشورہ سے دو دن میں اپنی مجلسِ عاملہ کا ہنگامی اجلاس بلاکر تحریک کا اعلان کردیا۔ 7؍نومبر کو میلوڈی سے ڈی چوک تک پہلا جلوس نکالنا تھا۔ مجھےکئی فون آئے کہ تنظیم پر پابندی لگ سکتی ہے بعد میں PFUJ کے خلاف بغاوت کا پرچہ بھی کٹا مگر ہم فیصلہ کرچکے تھے۔ اس دن جلوس میں کئی سو لوگ تھے میں نے شمسی کو بلاکر کہا، ’’چوہدری صاحب یہ پہلا جلوس ہے آخری نہ بنا دینا۔ ابھی پتا نہیں تحریک کب تک چلانا پڑے‘‘۔ جواب آیا، ’’او یار لڑائی کا اپنا ہی مزہ ہوتا ہے‘‘۔
اس دن سب سے زیادہ پرجوش وہی تھا۔ پہلے ہم نے ایک اسٹریٹ شو کیا جس میں پابندی لگنے والے اینکر حامد میر، طلعت حسین، عاصمہ شیرازی، نصرت جاوید شریک تھے۔ پھر جلوس روانہ ہوا۔ ہما علی، پرویز شوکت، سی آر شمسی، افضل بٹ سب ہی ساتھ تھے۔ طے یہ تھا کہ ڈی چوک پر آئندہ کے پروگرام کا اعلان ہوگا۔
اتنے میں کسی ساتھی نے مجھے آکر اطلاع دی کہ شمسی صاحب پولیس کی رکاوٹیں توڑ کر ایوان صدر تک جانے کی کوشش کررہے ہیں، اس میں ان کی شرٹ تک پھٹ گئی ہے بعد میں میں نے تھوڑی ڈانٹ ڈپٹ بھی کی کہ تنظیمی ڈسپلن کا خیال رکھیں۔
یہ تحریک 88روز چلی جس میں کراچی کے ساتھیوں کو گرفتاری بھی دینی پڑی جب پولیس جلوس کے دوران تین چار صحافیوں کو پکڑ کر تھانے لے جانے لگی۔ یہ دیکھ کر کوئی دو سو کے قریب ساتھی تھانے پہنچ گئے اور گرفتاری دی کہ جب تک ان کو نہیں رہا کیا جائے گا وہ بھی نہیں رہا ہوں گے۔مگر وہ تو فوجی حکومت تھی۔ خیال تھا کہ جمہوریت آئے گی تو شاید کچھ سانس لینے کا موقع ملے ۔
شمسی ٹریڈ یونین کی اس نسل سے تعلق رکھتے تھے جنہوں نے اپنے آج کو ہمارے کل کے لئے قربان کیا۔ شمسی نے منہاج برنا، نثار عثمانی، عبدل حمید چھاپرہ اور احفاظ الرحمان صاحب کے ساتھ بہت کام کیا اور آخر وقت تک اس نظریہ سے جڑا رہا آزادیٔ صحافت اور کارکنوں کے بنیادی حقوق۔
حال ہی میں ہونے والے دھرنے کے بھی یہی دو بنیادی اصول تھے اور ہیں۔ اب یہ سوال حکومت کے لئے بھی ہے ۔ اخبار مالکان اور چینلز کے لئے بھی۔ کیا اس حق کے لئے آواز بلند کرنا جرم ہے اگر نہیں تو پھر کیوں شمسی جیسے لوگوں کو برسوں بے روزگاری کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟
2007 کی تحریک میں بھی ہم ساتھ تھے اور 2021کی جدوجہد میں بھی۔ حال ہی میں جب وہ ملا تو میں نے کہا، ’’یار شمسی حیرت ہوتی ہے جب جمہوری ادوار میں بھی وہ ہی جدوجہد کرنا پڑے جو آمرانہ دور میں کی‘‘۔ کہنے لگا، ’’جس دن یہ لوگ جمہوری ہوجائینگے شاید ہماری لڑائی ختم ہوجائے مگر مالک اور اجیر کا معاملہ شاید ہمیشہ چلتا رہے‘‘۔
یار شمسی تو ذرا جلدی چلا گیا۔ ابھی تو کوئٹہ سے اسلام آباد تک لانگ مارچ ہونا ہے۔ میرے لئے مشکل یہ ہے کہ اب پارلیمنٹ تک جاتے وقت پولیس کی رکاوٹ توڑنے کا وقت آیا تو شمسی کہاں ہوگا؟ شاید وہ شمس سے اس تحریک کو روشنی دے۔ وہ تحریکوں کا دیوانہ بہت یاد آئے گا۔؎
کوئی تو پرچم لے کر نکلے اپنے گریباں کا جالب
چاروں جانب سناٹا ہے دیوانے یاد آتے ہیں
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔