02 اکتوبر ، 2021
نوے کی دہائی کے برعکس طالبان کے لیے موجودہ افغانستان میں کوئی سیاسی اپوزیشن نظر نہیں آتی لیکن عسکری محاذ پر انہیں داعش کے خطرے کا سامنا ہے۔
سرحدی علاقوں میں اس عسکری شدت پسند تنظیم کے خلاف طالبان کی ’کم شدت کی جنگ‘جاری ہے۔
کابل ائیرپورٹ دھماکے ہوں، یا جلال آباد دھماکے ، داعش خراسان کی کارروائیاں افغانستان پر طالبان کنٹرول کے بعد بھی جاری ہیں۔
دوسری طرف طالبان جنگجوؤں کی جانب سے انہیں ٹھکانے لگانے اور گرفتار کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے لیکن یہ کریک ڈاؤن علی الاعلان نہیں کیا جارہا، طالبان حکومت نہیں چاہتی کہ نئے اقتدار پر داخلی خطرات کا گہن لگے۔
افغانستان کے صوبے کنٹر اور ننگرہار کو کبھی داعش کا گڑھ سمجھا جاتا تھا لیکن ان کی کمر یہاں پر توڑ دی گئی تاہم طالبان کو اب بھی ان کے سلیپر سیلز کی موجودگی کا خطرہ لاحق ہے۔
ننگر ہار کے راستوں پر جگہ جگہ طالبان کے ناکے ہیں جو گاڑیوں کی تلاشی لیتے ہیں، پاک افغان بارڈر طورخم سے قریب مہمند درا نامی ڈسٹرکٹ میں 2018 کے خودکش دھماکے میں جاں بحق مقامیوں کی قبریں بھی موجود ہیں۔
ایک مقامی شخص نے بتایا کہ یہ لوگ اس وقت کی حکومت کے خلاف احتجاج کررہے تھے کہ ان کے بیچ موجود خودکش بمبار نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا، دھماکے میں پینسٹھ سے زائد لوگ شہید ہوئے۔ یہاں گاؤں میں اب بھی اس دھماکے کے متاثرین معذوری کی شکل میں موجود ہیں۔
جیو نیوز کی طرف سے رابطہ کرنے پر طالبان حکومت نے داعش خراسان کے معاملے پر مؤقف دینے سے اجتناب کیا ہے۔
باوثوق ذرائع یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ داعش کے سلیپر سیلز قصبوں، دیہاتوں اور شہروں میں موجود ہوسکتے ہیں۔
ذرائع یہ بھی بتاتے ہیں کہ طالبان کی جانب سے القاعدہ، ٹی ٹی پی اور دیگر عسکری جماعتوں سے تو افغانستان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ کرنے پر بات چیت ہوئی ہے لیکن داعش کے ساتھ ایسا کوئی رابطہ نہیں ہو پایا ہے۔