بلاگ
Time 05 اکتوبر ، 2021

پنڈورا پاکستانی اور اوورسیز پاکستانی

کچھ لوگوں کے نام پانامہ پیپرز میں آ گئے تھے، جو رہ گئے تھے ان کے نام پنڈورا پیپرز میں آ گئے ہیں۔ 

تازہ ترین کارروائیوں میں سیاست دانوں کے علاوہ تاجروں، سول بیوروکریٹس اور چند ریٹائرڈ فوجی افسروں کے نام بھی سامنے آ گئے ہیں، آصف علی زرداری سینہ تان کر کہہ سکتے ہیں کہ ان کا نام نہ پانامہ میں تھا، نہ ہی پنڈورا کی زینت بن سکا۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان بھی ایسا ہی دعویٰ کر سکتے ہیں کہ ان کا نام دونوں پیپرز میں نہیں ہے، عمران خان تو خیر ویسے بھی کرپشن کے خلاف گفتگو کرتے ہوئے ملک کی سب سے بڑی بیماری کرپشن ہی کو قرار دیتے ہیں۔

پانامہ پیپرز کے کچھ کرداروں نے عمران خان کو بدنام کرنے کے لئے ایک گیم پلان تیار کیا تھا، بروقت اطلاع ہونے پر یہ منصوبہ ناکام ہوگیا اور میڈیا کے جن نام نہاد جنگجوئوں کے سپرد یہ سارا کھیل تھا وہ بھی منصوبے کی طرح ٹھس ہو گئے۔ اب وہ پنڈورا پیپرز پر بھی کیا بات کریں کہ وہاں بھی علی ڈار کا نام نکل آیا ہے، مفرور اسحاق ڈار کا یہ بیٹا غالباً میاں نواز شریف کا داماد ثانی ہے کیونکہ داماد اول کا سرٹیفکیٹ تو اپنے ملک صفدر اعوان کے پاس ہے۔ پانامہ اور پنڈورا میں انہی کرم فرمائوں کے لچھن سامنے آئے ہیں جنہوں نے اس ملک کو کسی نہ کسی طرح لوٹا۔ کسی نے ٹیکس چوری کی، کسی نے منی لانڈرنگ کی اور کسی نے جی بھر کر کرپشن کی۔ تینوں صورتوں میں اپنے ہی ملک کو چونا لگایا۔

اگرچہ کچھ مغربی ہستیوں کے نام بھی سامنے آئے ہیں مگر زیادہ نام غریب ملکوں کے امیر باشندوں کے ہیں۔ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان یہ مقدمہ اقوامِ متحدہ میں بھی پیش کر چکے ہیں کہ غریب ملکوں سے وہاں کی اشرافیہ کے افراد دولت لوٹ کر امیر ملکوں میں لے آتے ہیں اور امیر ملک اس لوٹی ہوئی دولت سمیت لٹیروں کو تحفظ دیتے ہیں۔ اس وجہ سے غریب ملک مزید غریب ہوتے جا رہے ہیں اور امیر ملک، امیر ترین ہوتے جا رہے ہیں، اس کرتوت سے دنیا کا معاشی توازن بگڑ رہا ہے۔

اقوامِ متحدہ اور عالمی طاقتیں تو پتہ نہیں کیا ایکشن لیتی ہیں البتہ عمران خان کو ایکشن لینے کا موقع ہاتھ آ گیا ہے، انہیں اب قوم کو کرپشن کے خلاف بھاشن دینے کی بجائے کرپٹ افراد کے خلاف کارروائی کرنی چاہئے۔ جن لوگوں نے بھی پیارے پاکستان کو لوٹا ہے ان سے نہ صرف لوٹ مار کا پیسہ واپس لیا جائے بلکہ انہیں نااہلی کے ساتھ کوئی اور بھی نشانی دینی چاہئے۔ اس کے لئے سادہ اور دیسی طریقہ یہی ہے کہ ماتھے پر کالک مل دی جائے، اس طرح لوگوں کو دور سے پتہ چل جایا کرے گا کہ ’’حضرت کرپٹ‘‘ آ رہے ہیں۔ یہ سیاہی اعلان بھی ہوگا اور اس شخص کی بدنامی بھی۔

مفت مشورہ یہ ہے کہ ماتھے پر ٹیٹو بنوا دیا جائے۔ ایک طرف پانامہ اور پنڈورا پیپرز میں شامل یہ افراد ہیں جو اپنے ملک کو چاٹ گئے اور دوسری طرف وہ غریب پاکستانی ہیں جو ان سے لٹ گئے مگر ایک تیسری طرف بھی ہے، اس طرف وہ پاکستانی ہیں جو سمندر پار ہیں، یہ سارا سال محنت کرتے ہیں، اپنے ملک میں رقوم بھیجتے ہیں، ان کا یہ احسان پہلے حکمرانوں نے کبھی مانا نہیں تھا بلکہ وہ اوورسیز پاکستانیوں کو دوسرے درجے کا شہری سمجھتے تھے، ان کے خیالات آج بھی اوورسیز پاکستانیوں سے متعلق ایسے ہی ہیں، ووٹ کے حق کی بات ہوتی ہےتو کہتے ہیں کہ ’’اوورسیز پاکستانیوں کو یہاں کے مسائل کا ادراک نہیں‘‘ ہمارے اپوزیشن رہنمائوں کو شاید یہ اندازہ ہی نہیں کہ پاکستان کے مسائل کا ادراک جتنا اوورسیز پاکستانیوں کو ہے اتنا ہماری اپوزیشن کو بھی نہیں، کسی کو اچھا لگے یا برا، سمندر پار پاکستانی عظیم لوگ ہیں، وہ وطن سے بہت محبت کرتے ہیں، ان کی دلچسپیوں کا محور و مرکز پاکستان ہی ہے۔

عمران خان پاکستان کے پہلے حکمران ہیں جنہیں یہ احساس ہے کہ اووورسیز پاکستانی اعلیٰ کردار کے حامل لوگ ہیں، انہیں ووٹ کا حق ضرور ملنا چاہئے بلکہ عمران خان تو اس بات پر ڈٹ گئے ہیں کہ اوورسیز پاکستانیوں کے بغیر الیکشن نہیں ہوگا۔ وزیراعظم پاکستان دو چیزیں چاہتے ہیں، نمبر ایک سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق ملے، نمبر دو ان عظیم پاکستانیوں کے لئے پاکستان کی ہر اسمبلی میں نشستیں ہوں۔ پچھلے دنوں اوورسیز پاکستانیوں کی سب سے بڑی تنظیم پاکستان اوورسیز کمیونٹی گلوبل کے سربراہ میاں طارق جاوید نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے دفتر کے باہر بھرپور مظاہرہ کیا۔

تنظیم کے ترجمان ندیم افضال پراچہ کے مطابق اوورسیز پاکستانیوں کا مطالبہ ہے کہ انہیں ووٹ کا حق دیا جائے کیونکہ وہ نہ صرف اس دھرتی پر پیدا ہوئے بلکہ وہ تو اس عظیم دھرتی کے خدمت گار ہیں، اپنے وطن کے کمائو پُوت ہیں، وہ خون پسینہ ایک کرکے پاکستان کی خدمت کر رہے ہیں۔ اسی لئے اوورسیز گلوبل کے سربراہ میاں طارق جاوید تو ووٹ کے حق کے ساتھ یہ مطالبہ بھی کر رہے ہیں کہ سمندر پار پاکستانیوں کے لئے پاکستان کے تمام ایوانوں میں نمائندگی ہونی چاہئے تاکہ ان عظیم پاکستانیوں کے مسائل حل ہو سکیں۔ پاکستان کی کئی سیاسی جماعتوں کے لچھنوں اور منافقتوں پر جون ایلیا کا شعر یاد آ رہا ہے کہ

آ تو جائوں مگر تمہارے خط

اہلِ کوفہ سے ملتے جلتے ہیں


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔