07 دسمبر ، 2021
اکیسویں صدی میں ٹیٹو کلچر نے دنیا میں تیزی پکڑی، مغربی ممالک میں لوگوں کی بہت بڑی تعداد اس نئے ٹرینڈ کو فالو کرتی دکھائی دی جبکہ پاکستان میں بھی مغرب سے متاثر ہوکر ٹیٹو بنوانے والوں کی تعداد میں اضافہ دیکھا گیا۔
اور اب کراچی میں بھی اس ٹرینڈ نے بہت سے افراد کو جکڑ لیا ہے۔ ٹیٹو بنوانے والے اپنی ذات سے جڑے اچھے برے تجربات جسم پر نقش کرنا پسند کرتے ہیں۔
جیو ڈیجیٹل سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کراچی کے ٹیٹو آرٹسٹ حسین شاہ نے بتایا کہ اس کلچر نے کراچی والوں کو بہت متاثر کیا ہے جس کے بعد ڈیفنس میں قائم ان کے اسٹوڈیو میں کلائنٹس کی تعداد بھی بڑھتی جارہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ عام طور پر پاکستان میں پروفیشنل ٹیٹو آرٹسٹ کا ملنا مشکل سمجھا جاتا ہے اس لیے انہوں نے یہ کام خود کرنے کی ٹھانی اور ڈیفنس میں ایک ٹیٹو اسٹوڈیو کی بنیاد رکھ کر 6 سے 8 ماہ میں دیگر افراد کو ٹریننگ دے کر بحیثیت پروفیشنل آرٹسٹ تیار کیا۔ ابتدا میں ایک یا دو کلائنٹس نے ہی ان کے اسٹوڈیو کا رخ کیا لیکن اب وہ روز کے 3 سے 4 کلائنٹس کو ڈیل کرتے ہیں۔
پین نما سوئی کے ذریعے جسم کے حصے پر سیاہی کی مدد سے ڈیزائن بنایا جاتا ہے۔ کلائنٹ کی فرمائش کے مطابق پہلے اسٹینسل رکھ کر سیپمل ڈیزائن جسم پر اتارا جاتا ہے جبکہ کلائنٹ کے مکمل اطمینان کے بعد ہی باقاعدہ طریقہ کار شروع کیا جاتا ہے۔
ٹیٹو بنوانے کے عمل میں 20 سے 25 منٹ لگتے ہیں لیکن یہ دورانیہ تکلیف برداشت کرنے پر منحصر ہے۔ عموماً ہڈی والے حصے مثلاً کہنی یا پسلیوں کے گرد ٹیٹو بنوانے سے تکلیف زیادہ ہوتی ہے۔ حسین کا کہنا ہے کہ اس عمل میں تکلیف کی شدت کو وہ 10 میں سے 7 نمبر پر ریٹ کریں گے۔
حسین نے بتایا کہ ناصرف نوجوان بلکہ 70 سال تک کے افراد بھی جسم کے مختلف حصوں پر نقش نگاری کرانے میں آگے آگے ہیں جن میں بڑی تعداد 20 سے 25 سال کے نوجوانوں کی ہے۔
ایج گروپ کے لحاظ سے کلائنٹس کی پسند بھی مختلف ہوتی ہے۔ 18 سے 25 سال تک کے نوجوان باڈی پر کچھ ایسا بنوانا پسند کرتے ہیں جس کا کوئی کانسیپٹ نہیں ہوتا ایسے افراد میں صرف اپنے جسم پر کچھ بنوانے کا شوق ہوتا ہے۔ نوجوان اپنے چاہنے والوں کے نام کندہ کرواتے ہیں اور تعلق ٹوٹ جانے کے بعد کوئی دوسرا نام کندہ کروانے کے لیے آجاتے ہیں جبکہ 25 سے 50 سال تک کی عمر کے افراد کو کانسیپٹ کے ساتھ کسٹمائز ڈیزائنز بنوانے میں دلچسپی لیتا دیکھا گیا ہے۔
ان ڈیزائنز میں اسماء الحسنیٰ وغیرہ بھی شامل ہیں جبکہ کلائنٹ کی مرضی کے مطابق بلیک اینڈ وائٹ یا کلر فل ڈیزائن بنائے جاتے ہیں۔
مغرب میں ٹیٹو کا سائز اور فی گھنٹہ کے حساب سے پیسے چارج کیے جاتے ہیں جبکہ حسین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ایسا ممکن نہیں کیونکہ یہاں پروسیجر لمبا ہونے کو کلائنٹ آرٹسٹ کا فالٹ سمجھتا ہے البتہ وہ ٹیٹو کے سائز کے مطابق 5 ہزار سے 15 ہزار روپے تک چارج کرتے ہیں۔
تیزی سے مقبول ہوتے اس ٹرینڈ کو جہاں بہت سے لوگ فالو کرکے خود کو منفرد ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں وہیں ان پر سخت تنقید بھی کی جارہی ہے البتہ ٹرینڈنگ میں رہنے والی کسی بھی چیز کو اپنانے کے لیے اس کے فائدے، نقصان اور مذہبی تقاضوں کو مد نظر رکھنا انتہائی ضروری ہے۔