ٹرانسپیرنسی سروے اور پی ٹی آئی حکومت

بدعنوانی پر نظر رکھنے والا بین الاقوامی ادارہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل دنیا میں ایک معتبر اور بڑا نام تصور کیا جاتا ہے جو عالمی سطح پر کرپٹ ممالک کو کرپشن سے پاک کرنے کی جدوجہد میں سرگرم عمل ہے اور ایسے اقدامات بروئے کار لاتا ہے جن سے کرپشن کی حوصلہ شکنی ہوسکے۔

گزشتہ دنوں انسدادِ بدعنوانی کے عالمی دن کے موقع پر ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے پاکستان کے حوالے سے نیشنل کرپشن پرسیپشن سروے رپورٹ شائع کی جس نے کرپشن کے خاتمے کے حکومتی دعووں کی قلعی کھول کر رکھ دی۔

ملک کے چاروں صوبوں میں کرائے گئے سروے میں یہ ہوشربا انکشاف سامنے آیا کہ گزشتہ 3 برس میں پاکستان میں کرپشن میں کمی کے بجائے اضافہ ہوا ہے اور سرکاری شعبوں میں کرپشن عروج پر ہے اور کرپٹ ترین اداروں میں پولیس پہلے جبکہ عدلیہ دوسرے نمبر پر ہے۔ اِسی طرح کرپشن میں سرکاری ٹینڈرنگ اور ٹھیکے داری تیسرے اور صحت کا شعبہ چوتھے نمبر پر ہے۔

حالیہ سروے میں پاکستان میں مہنگائی کا موازنہ بھی کیا گیا ہے جس کا ذمہ دار موجودہ حکومت کو قرار دیا گیا ہے۔

سروے میں بتایا گیا کہ عوام کی 92.9 فیصد اکثریت کا کہنا ہے کہ گزشتہ حکومتوں کے مقابلے میں پی ٹی آئی کے 3 سالہ دور حکومت میں مہنگائی بلند ترین سطح پر ہے جو گزشتہ ماہ نومبر میں 11.5 فیصد سے تجاوز کرگئی ہے جبکہ (ن) لیگ کے دور میں مہنگائی کا تناسب 4 فیصد تھا۔ سروے کے مطابق پی ٹی آئی دور حکومت میں 86 فیصد پاکستانیوں کی آمدنی بڑھنے کے بجائے سکڑ کر رہ گئی ہے اور وہ حکومت کو بڑھتی ہوئی کرپشن کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں۔

حیران کن بات یہ ہے کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے سروے کے برعکس گزشتہ دنوں ’’احساس راشن پروگرام‘‘ تقریب میں وزیراعظم نے پاکستان کو دنیا کا سستا ترین ملک قرار دیا اور کہا کہ دوسرے ممالک کی نسبت پاکستان میں کوئی مہنگائی نہیں اور ملک میں اشیاء انتہائی سستی ہیں۔

وزیراعظم کی طرح حکومتی وزراء بھی ماضی میں اِسی طرح کے دعوے کرتے رہے ہیں حالانکہ عالمی ادارے پاکستان کو مہنگائی کے لحاظ سے دنیا کا چوتھا ملک قرار دے چکے ہیں۔

واضح رہے کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل رواں سال کے آغاز میں کرپشن رینکنگ کے حوالے سے اپنی سالانہ رپورٹ میں دنیا کے 180 ممالک میں پاکستان کو کرپشن رینکنگ میں 124 ویں نمبر پر قرار دے چکا ہے۔

اس سے قبل 2019 میں پاکستان سی پی آئی رینکنگ میں 120 ویں اور 2018 میں 117 ویں نمبر پر تھا۔ اس طرح گزشتہ 3 برسوں میں کرپشن کی عالمی فہرست میں پاکستان کی 7 درجے تنزلی ہوئی ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان میں کرپشن تیزی سے فروغ پارہی ہے اور پاکستان دنیا کے کرپٹ ترین ممالک شام، صومالیہ اور جنوبی سوڈان کی صف میں آکھڑا ہوا ہے۔

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کسی سیاسی جماعت کی رپورٹ نہیں بلکہ ایک ایسے ادارے کی ہے جسے پوری دنیا میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اس طرح ادارے کا حالیہ سروے اور جنوری میں کرپشن پرسیپشن انڈیکس میں پاکستان کی تنزلی حکومت اوراس کے تمام متعلقہ اداروں کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے۔

محکمہ پولیس، صحت، تعلیم اور دیگر اداروں میں کرپشن سے پاکستانی عوام پہلے ہی واقف ہیں مگر یہ امر قابل افسوس ہے کہ کرپشن اب عدلیہ میں بھی بڑے پیمانے پر سرایت کرگئی ہے حالانکہ پاکستان میں عدلیہ کی تنخواہیں سب سے زیادہ ہیں۔

عمران خان اقتدار میں آنے سے قبل اپنی تقریروں میں یہ دعویٰ کرتے رہے کہ ملک میں یومیہ 15 ارب روپے کی کرپشن ہورہی ہے اور وہ برسراقتدار آکر ملک سے کرپشن کا خاتمہ کریں گے مگر لگتا ہے کہ وزیراعظم کا کرپشن کے خاتمے کا نعرہ محض ’’سیاسی نعرہ‘‘ تھا جس کو تقویت پی ٹی آئی کے بانی رکن اور سپریم کورٹ کے سابق سینئر جج جسٹس وجیہہ الدین احمد کے حالیہ ہوشربا انکشافات سے ملتی ہے کہ یہ سوچ بالکل غلط ہے کہ عمران خان دیانتدار آدمی ہیں کیونکہ ان کے گھر کے اخراجات بھی ان کے قریبی دوست جہانگیر ترین اٹھایا کرتے تھے اور وقت نے ثابت کیا کہ جہانگیر ترین چینی اسکینڈل میں ملوث تھے۔

یہی وجہ ہے کہ حکومتی صفوں میں شامل مٹھی بھر اشرافیہ نے ملک کے وسائل پر قبضہ کر رکھا ہے جن کی دولت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے جبکہ ملک کی نصف آبادی غربت اور افلاس کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔عمران خان ماضی میں اکثر یہ کہا کرتے تھے کہ ’’اگر ملک میں کرپشن ہورہی ہو تو اِس کا ذمہ دار حکمران ہوتا ہے۔‘‘

وزیراعظم کا یہ دعویٰ اگر درست تسلیم کرلیا جائے تو اس طرح ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی حالیہ رپورٹ نے حکومت کی کرپشن مخالف مہم کی قلعی کھول دی ہے جو پی ٹی آئی حکومت کے خلاف گویا چارج شیٹ ہے۔ افسوس کہ حکومت کرپشن پر قابو تو نہ پاسکی البتہ اس میں اضافےکا سبب ضرور بن گئی۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔