دیوالیہ معیشت۔ شبر زیدی کا انکشاف

ملک کے مستقبل کے معماروں سے خطاب کرتے ہوئے پی ٹی آئی حکومت میں ایف بی آر کےسابق چیئرمین شبر زیدی کے گزشتہ دنوں کیے گئے اِس انکشاف کہ ’’پاکستان دیوالیہ ہوچکا ہے‘‘ نے ملکی معیشت کے ترقی کی جانب گامزن ہونے کے حکومتی دعوے کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔

 شبر زیدی کے بقول ’’اکاؤنٹنگ کی اصطلاح میں اس وقت ملک دیوالیہ ہوچکا ہے اور حکومت کا یہ کہنا کہ ہم نے معاشی میدان میں کامیابی حاصل کرلی ہے اور سب کچھ ٹھیک ہے، عوام کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔

‘‘ یاد رہے کہ شبر زیدی پی ٹی آئی حکومت میں مئی 2019ء سے اپریل 2020ء تک چیئرمین ایف بی آر کے عہدے پر فائز رہے۔ عہدہ سنبھالنے سے قبل وہ چارٹرڈ اکاؤنٹینٹ کمپنی فرگوسن کے سینئر پارٹنر تھے، اس لیے ان کے مذکورہ بیان نے عوام میں مایوسی کی لہر دوڑادی ہے کیونکہ یہ بیان کسی سیاسی لیڈر کا نہیں بلکہ ایک ایسے شخص کا ہے جو اکاؤنٹنگ کی دنیا میں ایک بڑا معتبر نام تصور کیا جاتا ہے۔ بعد ازاں مبینہ دباؤ پر شبر زیدی کو یہ وضاحت کرنا پڑی کہ کرنٹ اکائونٹ اور مالیاتی خسارے کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں دیوالیہ ہونے کی بات کی تھی۔

کراچی کی نجی تقریبات میں شبر زیدی سے اکثر ملاقات رہتی ہے، جہاں وہ یہ کہتے رہے ہیں کہ کرنٹ اکاؤنٹ اور مالی خسارے کی صورتحال ملک کو دیوالیہ ہونے کی طرف لے جارہی ہے۔ وزارتِ اقتصادی امور کے گزشتہ دنوں شائع کردہ اعداد و شمار سے بھی شبر زیدی کے بیان کو تقویت ملتی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت گزشتہ 3 برسوں میں 40 ارب ڈالر کا بیرونی قرضہ حاصل کرچکی ہے جبکہ گزشتہ 5 مہینوں (جولائی تا نومبر) کے دوران 4.6 ارب ڈالر کا قرضہ حاصل کیا گیا جو اوسطاً ماہانہ ایک ارب ڈالر سے زائد بنتا ہے اور یہ ملکی تاریخ کا سب سے بڑا قرضہ ہے۔ 

پی ٹی آئی کے 3 سالہ دور میں لیے گئے قرضوں کا موازنہ اگر نواز شریف حکومت سے کیا جائے تو (ن) لیگ نے 5 برسوں میں 23 ارب ڈالر قرضہ لیا لیکن پی ٹی آئی حکومت نے صرف 3 برسوں میں 40 ارب ڈالر کا قرضہ حاصل کیا اور اس طرح پی ٹی آئی حکومت کا شمار ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ قرضے لینے والی حکومت میں کیا جائے گا جس نے اربوں ڈالر کے قرضے تو لیے مگر عوام کے لیے کوئی پروجیکٹ نہیں لگایا جو ایک لمحہ فکریہ ہے۔

 واضح رہے کہ 2018 تک پاکستان پر بیرونی قرضے 75 ارب ڈالر تھے جو گزشتہ 3 سال میں 40 ارب ڈالر اضافے کے بعد 115 ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں جبکہ ملک کے مجموعی قرضے 40کھرب روپے یعنی جی ڈی پی کا 98.7 فیصدہوچکے ہیں جو خطرے کی گھنٹی ہے اور اس طرح ہر پاکستانی تقریباً 2 لاکھ روپے کا مقروض ہوچکا ہے۔

قرضے لینا کوئی برا فعل نہیں بشرطیکہ یہ قرضے منصوبوں کیلئے لیے جائیں نہ کہ بجٹ خسارہ پورا کرنے کیلئے ملک اور عوام کو مقروض بنایا جائے۔ نواز شریف دورِ حکومت میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے جو قرضے لیے، اُن سے 12000 میگاواٹ بجلی کے کارخانے، میٹرو منصوبے اور 2000 کلومیٹر طویل موٹر ویز کا جال بچھایا گیا مگر پی ٹی آئی دور میں تاریخی قرضے لینے کے باوجود ملک میں کوئی نیا پروجیکٹ منظر عام پر نہیں آیا۔

 گزشتہ دنوں حکومت نے سعودی عرب سے 3 ارب ڈالر کا قرضہ نہایت سخت شرائط اور 4 فیصد شرح سود پر حاصل کیا جس میں ایسی شرائط بھی مانی گئیں کہ سعودی عرب کچھ گھنٹوں کے نوٹس پر اپنا قرضہ واپس لے سکتا ہے، پاکستان اس قرضے کو استعمال نہیں کرسکتا یعنی آپ یہ رقم شوکیس میں رکھ کر دکھا سکتے ہیں مگر اسے استعمال نہیں کرسکتے اور اس سعودی قرضے کا واحد مقصد زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری دکھانا تھا۔

 وزیر خزانہ شوکت ترین نے حال ہی میں آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر قرضے کی دوسری قسط حاصل کرنے کیلئے عالمی ادارے کو یقین دہانی کرائی کہ حکومت عوام پر360 ارب روپے کے نئے ٹیکسز لگائے گی جس کیلئے منی بجٹ اور اسٹیٹ بینک کی خود مختاری کی کابینہ نے منظوری دے دی ہے تاہم پارلیمنٹ میں ہنگامہ آرائی کے بعد حکومت منی بجٹ کی قومی اسمبلی سے منظوری میں مصلحتاً تاخیر کررہی ہے مگر جب بھی منی بجٹ بل منظور ہوا، ملک میں مہنگائی کا سونامی لائے گا۔ 

ایسی اطلاعات ہیں کہ حکومت نے آئی ایم ایف کو اس مد میں صدارتی آرڈیننس جاری کرنے کی تجویز پیش کی ہے جسے آئی ایم ایف نے یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ صدارتی آرڈیننس کی مدت 4 مہینے ہوتی ہے، اس لیے آرڈیننس کی تجویز مناسب نہیں۔

 آئی ایم ایف کی شرائط میں سب سے بڑی شرط اسٹیٹ بینک کی مکمل خود مختاری ہے یعنی اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا گورنر حکومت پاکستان کا تابع نہیں ہوگا جبکہ ڈسکاؤنٹ ریٹ، ڈالر ریٹ اور ملکی قرضوں کے معاملات میں اسٹیٹ بینک مکمل خود مختار ہوگا۔ معیشت جب تنزلی کا شکار ہوتی ہے تو اس کا اثر ملکی کرنسی پر بھی پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روپیہ ڈالر کے مقابلے میں اوپن مارکیٹ میں181 روپے کا ہوچکا ہے اور اس کے200 روپےسے تجاوز ہونے کا امکان ہے۔

شبر زیدی کے انکشاف اور وزارتِ اقتصادی امور کی حالیہ رپورٹ سے یہ عیاں ہے کہ سب کچھ ٹھیک نہیں اور حکومتی دعوے عوام کو دھوکہ دینے کے مترادف ہیں۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ 70 سال تک ملک لوٹنے کا ڈھنڈورا پیٹا گیا مگر ملک دیوالیہ نہیں ہوا لیکن گزشتہ 3 برسوں میں لوٹی دولت کو واپس لانے کا دعویٰ کرنے والی حکومت نے ملک کو دیوالیہ پن سے دوچار کردیا، جو یقیناً ایک لمحہ فکریہ ہے۔ 

پی ٹی آئی حکومت صرف 3 برسوں میں 40 ارب ڈالر کا قرضہ حاصل کرنے کیلئے پاکستان کی ہر چیز گروی رکھ چکی ہے، ایسا نہ ہو کہ ہمیں مزید قرضوں کے حصول کیلئے اپنے ایٹمی اثاثے بھی گروی رکھنا پڑجائیں


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔